اسلام آباد( افضل شاہ یوسفزئی ) یحییٰ سنوار کو اسرائیل نے شہید کر دیا۔ یہ اسرائیلی جارحیت کا تسلسل ہے جس کے تحت وہ فلسطینی قیادت کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیلی فورسز نے ڈی این اے سے ان کی موت کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ اس حملے میں تین افراد جاں بحق ہوئے ہیں
یحییٰ سنوار، فلسطینی مزاحمت کی جدوجہد میں ایک نمایاں نام تھے، 1962 میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت غزہ مصر کے کنٹرول میں تھا اور فلسطینی عوام شدید مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ ان کی زندگی ابتدا سے ہی مشکلات اور سختیوں سے گھری ہوئی تھی، مگر ان کا عزم اور جذبہ قابلِ دید تھا۔
سنوار نے اپنی ابتدائی تعلیم خان یونس میں حاصل کی اور پھر اسلامی یونیورسٹی غزہ میں داخلہ لیا۔ یہاں ان کی دلچسپی فلسطینی مزاحمت میں بڑھی اور انہوں نے طلبہ تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ تعلیمی دور میں ہی انہوں نے ایک رہنما کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ گریجویشن کے بعد انہوں نے ایک خفیہ تنظیم “منظامت الجاہد والدعوہ” (MAJD) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا مقصد فلسطین کو اسرائیلی جاسوسی سے محفوظ رکھنا تھا اور یہ اسرائیلی کے لئے جاسوسی کرنے والوں کی نگرانی کرتی اور انہیں سزائیں دیتی۔
1988 میں اسرائیلی فورسز نے سنوار کو گرفتار کیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اپنی تیس سالہ قید کے دوران، یحییٰ نے انتہائی سخت حالات کا سامنا کیالیکن ان کی مزاحمت جاری رہی۔ وہ ایک مضبوط ذہن کے مالک تھے اور قید کے دوران انہوں نے عبرانی زبان سیکھی تاکہ وہ اپنے دشمن کی سوچ اور حکمت عملی کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
2006 میں حماس نے اسرائیل کے ایک فوجی گیلاد شالت کو قید میں لے لیا اور اسے پانچ سال تک اپنے پاس رکھا۔ اس کے نتیجے میں 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اسرائیل نے ایک ہزار ستائیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔ رہائی کے بعد سنوار فلسطینی عوام میں ہیرو کی حیثیت اختیار کر گئے۔ انہیں رملہ کی سڑکوں پر کندھوں پر اٹھا کر گشت کرایا گیااور فلسطینی صدر نے انہیں تحریک آزادی کا مجاہد قرار دیا۔
یحی کی زندگی کا یہ نیا باب حماس میں اہم عہدے پر فائز ہونے کے بعد شروع ہوا۔ 2017 میں انہوں نے حماس کی قیادت سنبھالی اور تنظیم کے “وزیر دفاع” کے طور پر جانے گئے۔ اسماعیل ہانیہ کے بعد وہ حماس کے مرکزی رہنما بن گئے۔
سنوار کو اسرائیلی تفتیشی افسران ہزار فیصد پر عزم اور کمیٹیڈقرار دیتے تھے۔ قید کے دوران انہوں نے عبرانی زبان سیکھی تاکہ وہ اپنے دشمن کا بہتر مطالعہ کر سکیں۔ 2008 میں ان کےدماغی کینسر کا علاج اسرائیلی ڈاکٹروں نے کیا، مگر وہ اس بیماری سے بچ نکلے۔
یحییٰ سنوار کی شہادت فلسطینیوں کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے، مگر یہ فلسطینی مزاحمت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ان کی زندگی اور شہادت فلسطینی عوام کے لئے امید اور عزم کا استعارہ بن چکی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل جارحیت کے باوجود فلسطینی عوام کا جذبہ اور ان کی آزادی کی خواہش روز بروز مضبوط ہو رہی ہے۔