دنیا ایک نئی قسم کی جنگ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے — ٹیکنالوجی وار۔ اس بار میدانِ جنگ صرف میدانِ جنگ نہیں رہا، بلکہ سرفہرست ہتھیار بن چکا ہے "جدید ٹیکنالوجی”۔ جہاں ایک جانب مغربی طاقتیں اور چین آمنے سامنے آ رہے ہیں، وہیں جنوبی ایشیا بھی اس عالمی منظرنامے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے دنیا کو ایک نئی حقیقت سے آشنا کیا ہے: ٹیکنالوجی ہی اصل طاقت ہے۔
بھارت نے اپنے دفاع اور حملے کی حکمت عملی میں دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی طاقتوں کا سہارا لیا تھا۔ اس کے پاس فرانس کے جدید رافیل جنگی طیارے، اسرائیلی ڈرونز، اور روس کا جدید ترین ایس-400 ائیر ڈیفنس سسٹم موجود تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر، یہ سب ٹیکنالوجیز پاکستان اور چین کی مشترکہ دفاعی حکمت عملی اور مقامی ٹیکنالوجی کے سامنے ناکام ہو گئیں۔
یہ شکست دراصل صرف بھارت کی نہیں تھی، بلکہ اس میں فرانس، اسرائیل، روس اور امریکہ کی ٹیکنالوجی کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پیش رفت نے عالمی سطح پر ایک سوال کھڑا کر دیا ہے: کیا مغرب کی ٹیکنالوجی ناقابلِ شکست ہے؟
بھارت میں اس ناکامی کا سیاسی اثر بھی فوری طور پر دیکھنے کو ملا۔ وزیراعظم نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی مقبولیت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی، جس کے باعث ان پر دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف محاذ کو کھلا رکھیں تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
دوسری جانب امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک اس صورتحال سے سخت پریشان ہیں کہ ان کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے تیار کی گئی ٹیکنالوجی کو پاکستان اور چین کی طرف سے نہ صرف چیلنج کیا گیا، بلکہ مؤثر طریقے سے شکست بھی دی گئی۔
یہ صورتحال اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت ایک بار پھر بڑی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بن سکتے ہیں، جہاں اصل جنگ ٹیکنالوجی کے غلبے کی ہوگی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ماضی میں عالمی تجزیہ کاروں کا عمومی خیال تھا کہ پاکستان اور چین جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن حالیہ کشیدگی نے اس بیانیے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔
اب دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ پاکستان اور چین نہ صرف جدید دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں قابلِ ذکر ترقی کر چکے ہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ آنے والے وقت میں دنیا کو ایک نئی ٹیکنالوجی ورلڈ وار کا سامنا ہو سکتا ہے، جس میں بندوقیں نہیں، بلکہ ڈرون، سائبر ٹیک، مصنوعی ذہانت اور دفاعی نظام اصل ہتھیار ہوں گے۔