پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
وقت کے ساتھ ساتھ زبانیں بھی ترقی کرتی ہیں اور لغت میں نئے الفاظ، معنی اور اصطلاحات کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ زبانوں کی ترقی کی بنیادی وجہ معاشی ترقی اور علوم میں اقوام کے آگے بڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی قوم سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتی ہے تو ان ایجادات اور علوم سے متعلق سینکڑوں نام رکھے جاتے ہیں جو اس زبان کو امیر سے امیر تر بناتے جاتے ہیں۔ مثلاً جس نے کمپیوٹر ایجاد کیا، ظاہر ہے کمپیوٹر سے متعلق سینکڑوں ہارڈ ویئرز اور سافٹ ویئرز کو انہوں نے اپنی زبان ہی میں تلاش کرتے ہوئے نام دینے ہوں گے اور یوں وہ زبان اور لغت نہ صرف یہ کہ ترقی کرتی ہے بلکہ وہ اقوامِ عالم کی دوسری زبانوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ زبانوں کی ترویج، بقا اور ترقی کی کہانی دراصل معاشی اور اقتصادی ترقی میں مضمر اور پنہاں ہے۔ پسماندہ اقوام کی زبانیں جو علم و ادب، اقتصادی سرگرمیوں اور سائنسی ایجادات سے دور ہوتی ہیں، رفتہ رفتہ متروک سے معدوم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پسماندہ اقوام کے اندر بھی ان کی زبانیں دھیرے دھیرے دم توڑتی ہیں اور وہ بجائے مادری زبانوں کے، ترقی یافتہ اقوام کی زبانیں بولنے میں عزت، وقار، تکریم، ترقی اور افضلیت محسوس کرتے ہیں، جو غلامی کا ایک غیر محسوس اور اعلیٰ درجہ ہوتا ہے۔ عموماً ایسے اقوام کی قوم پرست سیاسی جماعتیں اور شاعر و ادیب اپنی زبانوں کی بقا اور ترقی کے لیے جلسے، جلوس اور مہمات چلاتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ زبانیں قوموں کی ترقی کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے کہ جہاں نہ صرف مقامی زبانوں بلکہ قومی زبان اردو کی زبوں حالی پر مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتون، اردو دان اور دیگر زبانیں بولنے والے سبھی یہی رونا روتے ہیں کہ ان کی مادری اور قومی زبانیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک طرف اگر ان زبانوں کے بولنے والے اپنی زبان پر دیگر زبانوں کو ترجیح دیتے ہیں تو وہاں دو دیگر وجوہات کی بنا پر بھی یہ زبانیں مشکلات کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک طرف یہ زبانیں خالص نہیں رہتیں اور عوام خود ان میں دیگر زبانوں کے الفاظ، ہجے اور محاورے شامل کرتے ہیں۔ دوسری طرف معاشی، سائنسی اور ایجاداتی اصطلاحات بھی اس میں خودبخود داخل ہوتی ہیں اور ان کا خالص پن شدت کے ساتھ متاثر ہوتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے زبان کی ترقی کی ذمہ داری سرکاری اداروں نے خوب سنبھالی ہوئی ہے۔ انہی سرکاری اداروں کے طفیل نئے نئے الفاظ، معنی اور مفاہیم پاکستان کی تمام قومی زبانوں بشمول اردو میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے بااثر اشرافیہ اور سیاستدانوں کا بھی اس ترقی میں بھرپور ہاتھ ہے۔ ملک بھر میں سرکاری اداروں میں زبان کی خدمت سب سے زیادہ پولیس فورس کر رہی ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
آپ نے پولیس فورس کی خبروں اور پریس ریلیزز میں مسلسل استعمال ہونے والے چند نکات ضرور بارہا دیکھے ہوں گے۔ جب بھی کوئی واردات ہوتی ہے تو متعلقہ اعلیٰ افسر اس کا نوٹس لیتا ہے۔ اب یہ "نوٹس” اگرچہ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر ہمارے ہاں کی تمام زبانوں میں اس لفظ کا مطلب "احسان” لیا جاتا ہے۔ یعنی اپنی ذمہ داری پر بجائے جوابدہ ہونے کے، جس امر کی طرف توجہ دی جاتی ہے اسے نوٹس یعنی احسان کہا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس لفظ کے اضافے کا سہرا "ڈسٹرکٹ پولیس افسران” کے سر جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی علاقے میں دو فریقین کے درمیان تین گھنٹے سے فائرنگ کا تبادلہ جاری ہو، جس میں جدید خودکار اسلحہ سے لیس سینکڑوں لوگ اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہوں اور اس میں دو افراد کی موت بھی واقع ہو جائے تو پولیس کی اس کارروائی کو لغت میں نئے اضافہ شدہ لفظ کے مطابق "بروقت کارروائی” کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے کہ تاخیری کارروائی پھر کسے کہتے ہوں گے۔ یہ لفظ بہرحال کبھی بھی ایجاد نہیں ہوگا کیونکہ تاخیر کا لفظ ہماری پولیس ڈکشنری میں ہے ہی نہیں۔ اسی طرح لغت میں پولیس کی برکت سے انصاف کے لیے "7” کا عدد مقرر کیا گیا ہے۔ اگر کہیں انصاف کو شارٹ ہینڈ میں لکھنے کی ضرورت پڑے یا زبان کا علم الاعداد سے کبھی کوئی مقابلہ ہو تو بعض تصورات کے لیے ہندسے بھی ضروری ہوتے ہیں۔ فریقین سے اگر سات سات لوگ جانبین گرفتار ہوں اور اسی تناسب سے اسلحہ بھی برآمد ہو تو اسے پولیس کارروائی کی بجائے "انصاف” سمجھا، لکھا اور بولا جائے، جس کے لیے پولیس نے لغت میں "7” کے ہندسے کو مقرر کر دیا ہے۔ جب بھی کسی پولیس کارروائی کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کہ "انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ویژن کے مطابق، آر پی او کی قیادت میں، ڈی پی او کی سربراہی میں ڈی ایس پی کی نگرانی، ایس ایچ او کی سربراہی میں ٹیم کو تشکیل دیا گیا جس میں سپاہی بہادر باچا کی رہنمائی حوالدار شاطر خان کر رہا تھا، نے سائنسی خطوط پر کام کرتے ہوئے اور ہیومن انٹیلیجنس اور جدید تفتیشی انداز اپناتے ہوئے، امن و امان کے قیام کے لیے شب و روز کام کرتے ہوئے چھاپہ زنی کرتے ہوئے مرغی چور کو گرفتار کرکے دو چوزے برآمد کر لیے، جبکہ انڈوں پر بیٹھی ہوئی مرغی کو ڈھونڈا جا رہا ہے”، تو آپ بلا تکلف اس کا مطلب "مکھیاں مارنا” نکال سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی بڑے افسر کا تھانہ جات اور چوکیوں کے معائنے کے عمل کو لغت کے رو سے "مجھے افسر مان” سمجھ سکتے ہیں۔
قومی لغت میں اب "پولیس مخبر” اس شخص کو کہتے ہیں جسے پولیس کی مدد کے جرم میں ذلیل کیا جائے۔
پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہونے والے اندر کے آدمی کو "مخبر” کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عوام سے دور رہنے والے شخص کو قومی زبان میں "افسر” کہا جاتا ہے۔
ہماری قومی زبانوں کی خدمت کا بیڑا صرف محکمہ پولیس نے نہیں اٹھایا ہے بلکہ ہر سرکاری ادارہ بشمول اشرافیہ اور سیاسی رہنماؤں نے اس میں برابر اپنا اپنا حصہ ڈال رکھا ہے، جو زبان پر احسان ہے، جس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی تصنیف کی ضرورت ہوگی، لہٰذا تھوڑے کو زیادہ جانتے ہوئے مجھے اجازت دیجئے۔ ہاں، سرکاری اضافے کے نتیجے میں عوام الناس نے تھوک کے حساب سے گالیاں ایجاد کی ہوئی ہیں، مگر چونکہ گالی کو ابھی تک ادب میں شامل نہیں کیا گیا ہے، لہٰذا اس پر کچھ لکھتے ہوئے "پیکا ایکٹ” کے تحت پولیس پرچے کی بہت زیادہ گنجائش بنتی ہے، لہٰذا اس سے دور رہنے میں ہی بچت اور عافیت ہوگی۔
رب راکھا