اسلام آباد : پاکستان ایک بار پھر عالمی امن کے سفر میں کلیدی کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کے مطابق، پاکستان 15 سے 16 اپریل کو اقوامِ متحدہ امن مشن وزارتی تیاری کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔ یہ کانفرنس جمہوریہ کوریا کے تعاون سے اسلام آباد میں منعقد ہو گی، جس کا مقصد عالمی امن مشنز کو مزید محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال اور مربوط حکمت عملی پر غور و خوض کرنا ہے۔
کانفرنس کا انعقاد نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبلیٹی (CIPS) میں کیا جا رہا ہے۔ اس بین الاقوامی اجلاس کا عنوان "مزید محفوظ اور مؤثر امن مشن کی جانب: ٹیکنالوجی کے استعمال اور مربوط حکمتِ عملی” رکھا گیا ہے، جو اس کی نوعیت اور مقاصد کو بخوبی واضح کرتا ہے۔
ترجمان کے مطابق، یہ کانفرنس اقوام متحدہ کی جانب سے 13 تا 14 مئی کو جرمنی کے شہر برلن میں منعقد ہونے والی وزارتی امن مشن کانفرنس کی تیاری کا ایک اہم قدم ہے۔ برلن کانفرنس میں دنیا بھر کے خارجہ و دفاعی وزراء شرکت کریں گے، جہاں اقوام متحدہ کے امن مشنز کو مزید مضبوط اور مؤثر بنانے پر بات چیت کی جائے گی۔
اسلام آباد کی اس دو روزہ کانفرنس میں نہ صرف پاکستانی اعلیٰ حکام بلکہ اقوام متحدہ کے سینیئر نمائندگان بھی شرکت کریں گے۔ ان میں ژاں پئیئر لاکروآ، انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن مشنز، اور اتول کھارے، انڈر سیکرٹری جنرل برائے آپریشنل سپورٹ شامل ہیں۔
کانفرنس میں امن مشنز کے مستقبل پر مختلف مباحثوں کا انعقاد کیا جائے گا جن میں ٹیکنالوجی کے کردار، بدلتے ہوئے عالمی چیلنجز، اور اقوام متحدہ امن اہلکاروں کی سلامتی جیسے اہم موضوعات شامل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے اور بین الاقوامی سطح پر امن مشنز کی حمایت میں دیگر تنظیموں کا کردار بھی زیرِ غور آئے گا۔
شفقت علی خان کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کے عالمی امن کے لیے غیر متزلزل عزم کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کرے گا۔ پاکستان اقوام متحدہ کے مشنز میں ایک نمایاں فوجی شراکت دار رہا ہے، جہاں اس نے اب تک 48 امن مشنز میں 2,35,000 امن کار تعینات کیے ہیں۔ ان میں سے 181 اہلکاروں نے عالمی امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جو پاکستان کے اس مقدس مشن سے وابستگی کا ثبوت ہے۔
یہ کانفرنس نہ صرف پاکستان کے کردار کو اجاگر کرے گی بلکہ دنیا بھر میں امن، استحکام اور سلامتی کے لیے ایک نئے باب کا آغاز بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری کو متحد کرنے، خطرات سے نمٹنے، اور جدید ٹیکنالوجی کو امن کے لیے استعمال کرنے کی پاکستانی کاوشیں یقیناً قابلِ تقلید ہیں۔