پاکستان میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کی مہم میں تیزی آ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، یکم اپریل 2025 سے اب تک کم از کم 8,906 افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔
یہ عمل اُس حکومتی فیصلے کے تحت ہو رہا ہے جس کے تحت 31 مارچ کی ڈیڈ لائن کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو واپس بھیجنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کارروائی میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق، پاکستان میں مقیم 8 لاکھ افغان شہریوں کے ریزیڈنسی کارڈز (ACC) منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ اب صرف 13 لاکھ افغان مہاجرین کے کارڈز جون 2025 تک مؤثر ہیں، جو کہ اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) کے مطابق، اپریل کے آغاز سے روزانہ تقریباً 4,000 افغان سرحد عبور کر کے واپس جا رہے ہیں — جبکہ مارچ میں یہ تعداد روزانہ اوسطاً صرف 77 تھی۔
افغان طالبان حکومت نے پاکستان کے اس اقدام پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ افغان شہریوں کو جبراً ملک سے نکالا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہے۔ طالبان کی وزارت برائے مہاجرین کا کہنا ہے:"افغان مہاجرین کو اپنے ساتھ دولت، سامان اور گھریلو اشیاء لے جانے کی اجازت دی جائے۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک ناقابلِ قبول ہے۔”
طالبان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دو طرفہ معاہدے کیے جائیں تاکہ عمل کو انسانی بنیادوں پر آسان بنایا جا سکے۔
ہیومن رائٹس واچ کی نمائندہ فریشتہ عباسی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی عہد و پیماں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، کیونکہ وہ افراد کو ایسے ملک واپس بھیج رہا ہے جہاں ان کی سلامتی خطرے میں ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں کشیدگی نئی نہیں۔ اسلام آباد بارہا کابل پر تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی کا الزام لگاتا آیا ہے۔ اسی تناظر میں افغان مہاجرین پر دباؤ بھی بڑھا ہے۔
پاکستان میں مقیم بہت سے افغان شہریوں کو اچانک بے دخل کیے جانے کے باعث مالی نقصان، جذباتی صدمے اور غیر یقینی حالات کا سامنا ہے۔ کئی افغان خاندان اپنا سامان، جمع پونجی اور گھر کی ضروری اشیاء چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ مہم غیر قانونی مہاجرین کو ملک سے نکالنے کی قومی حکمت عملی کا حصہ ہے، اور قانونی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔