دو دہائیاں قبل پاکستان کے سیاسی افق پر عمران خان کی تحریکِ انصاف نمودار ہوئی، کچھ مہربانوں کی مہربانیوں سے اچانک عروج پر آئی اور اب زوال کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ ملک گیر احتجاج کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ پر کھڑا ہے اور یہ بھی کہ کیا یہ واقعی پُرامن احتجاج تھا۔ لیکن اس سارے نفڑے میں جس بات نے پاکستانیوں کو حیران کن جھٹکا دیا ہے وہ تحریک انصاف کے اسلام آباد پر حالیہ حملے میں تحریک انصاف کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو ڈی چوک دھرنے میں شرکت اور خطاب کی دعوت دینا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی سیاست کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے اب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے مدد مانگ لی ہے، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما و ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے جے شنکر کو پی ٹی آئی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی۔
بھارت سے مدد کی بھیک مانگنے کے پی ٹی آئی کے اس غیر متوقع اقدام سے ملک بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان نے پہلے امریکہ سے مدد مانگی جسے قبل ازیں خود ہی اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار قرار دیا تھا اور اب اچانک بانی پی ٹی آئی بھارتی حکومت سے مدد مانگ رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بیرسٹر سیف نے باضابطہ طور پر میڈیا انٹرویوز کے ذریعے بھارتی وزیر خارجہ تک یہ درخواست پہنچائی۔
پاکستان میں عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے ڈی چوک احتجاج کے پیچھے چھپی تحریک انصاف کی خوفناک سازش بے نقاب ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ریاست کیا کر رہی ہے، کیوں خاموش ہے،، کیا ریاست کے پاس اس کا کوئی حل نہیں؟یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ازلی دشمن کو احتجاج میں شرکت کی دعوت نے تحریک انصاف کی وطن دوستی کا پول بھی کھول دیاہے، اس دعوت سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف اپنے گھناؤنے عزائم کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے-
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے احتجاج میں شرکت اور اس سے خطاب کی دعوت صرف بھارتی وزیر خارجہ کو ہی کیوں دی؟ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے تو کئی اور ممالک کے وفود بھی آ رہے ہیں۔ دوسری جانب میں دو صیہونی اخبارات دی ٹائمز آف اسرائیل اور دی یروشلم پوسٹ نے عمران خان کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات کا اشارہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بانی پی ٹی آئی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عوام کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
ان حالات میں کیا یہ واضح نہیں کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما بیرسٹر سیف نے بھارتی وزیر خارجہ جئے شنکر کو پی ٹی آئی کے احتجاج میں شرکت کی دعوت دے کربھارت سے اپنا تعلق بھی واضح کر دیا ہے۔ما
ماضی قریب کی ہی بات تو ہے جب عمران خان نے پاکستان کو دولخت کرنے والے غدار شیخ مجیب الرحمٰن کے گن گائے تھے اور ہزاروں پاکستانیوں کی قاتل عوامی لیگ اور مکتی باہنی کو بھی جمہوریت کے علمبردار قرار دیا تھا۔
احتجاج کا ایک ایسے وقت میں ہونا اور اُس سے ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کرنا کچھ اہم نکات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
پہلا نکتہ یہ کہ تحریک انصاف کے احتجاج کا وقت اور مقام بہت معنی خیز ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم اجلاس کے موقع پر جبکہ مختلف ممالک سے ہمارے معزز مہمان اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں، ایسے انتشاری احتجاج کی کال دینا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ ظاہر ہے اس احتجاج کا مقصد ایک ہی ہے یعنی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنا۔
دوسرا نکتہ یہ کہ تحریک انصاف کے احتجاج میں افغان شہریوں کی شمولیت اور ہتھیاروں کی موجودگی ان کے پر امن ہونے کے دعووں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ آخر سینکڑوں افغان دہشت گرد اس احتجاج میں کیوں شامل کیے گئے، ان کے پاس اسلحہ کیوں تھا؟
تیسرا نکتہ یہ کہ ایسے احتجاج سے ہماری معیشت اور معمول زندگی پر منفی اَثر پڑتا ہے۔کیا ایسے موقع پر،جب پاکستان کی سسکتی معیشت کو تھوڑی سی تقویت مل رہی ہے،کوئی محب الوطن احتجاج کر کے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا سکتا ہے؟
اور چوتھا نکتہ یہ کہ بیرسٹر سیف نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو جو اپنے احتجاج میں شرکت اور خطاب کی دعوت دی ہے اس کو تحریک انصاف کی سیاست کا پول کھلنا نا سمجھا جائے تو اور کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟
تحریک انصاف کی قیادت کو جلد یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ان کا طرزِ سیاست ان کی سیاست کو تیزی سے پاتال کی گہرائیوں میں دھکیل رہا ہے۔