Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب نہیں ہونگے، پرویز الٰہی نئے وزیراعلیٰ پنجاب ہونگے، سپریم کورٹ

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے فیصلے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دے دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس سمیت جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ عدالت نے کیس کی سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو پہلے5بجکر45منٹس پر سنایا جانا تھا۔ تاہم بعد میں فیصلہ سنانے کا دورانیہ بڑھا کر 7بجکر30منٹس کر دیا گیا۔
دوارن سماعت چودھری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ میں بیان دیا ۔ انہوں نے ضمنی الیکشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز نے کہا تھا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن منظور ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ رضامندی دیتے وقت حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے؟ ۔ اس پر مسلم لیگ ق کے سربراہ پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی اور ڈپٹی سپیکر کے وکلا میرٹ پر عدالتی سوالات کی جواب نہیں دے سکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل63اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا۔ اب مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل63اے کی تشریح کی کوشش کی ہے۔ کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل کی تشریح درست نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ فریق دفاع نے الیکشن کمیشن کے منحرف ارکان کے خلاف فیصلہ کا حوالہ دیا ہے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ کیا ضمنی انتخابات کے بعد منحرف ارکان کی اپیل تک سماعت روکنے کا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔
علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اصولی طور پر منحرف ارکان کی اپیلوں کو پہلے سننے کا اعتراض نہیں بنتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی شبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے لیکن ووٹنگ کے لیے ہدایات پارلیمانی پارٹی کا ہیڈ جاری کرتا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی ۔ پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے موقف اپنایا کہ تین ماہ سے وزیراعلی پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا۔ ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.