اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے انکشاف کیا ہےکہ (ر) جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد کی اور انہوں نے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کی مدد کی۔ صدر مملکت نے کہا کہ اگر فوج نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اب وقت آچکا ہے کہ سیاست دان معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ انہوں نے کہا، ’آپ (سیاست دان) ایسے حالات پیدا کر دیں کہ جن میں آپ کو اِن (فوج) کی طرف نہ بھاگنا پڑے۔‘
عارف علوی کا کہنا تھا کہ باجوہ نے عمران کی سینیٹ اور انتخابات میں مدد کی، نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور معاف کردیں، عمران کو پریشان ہونا چاہیے الیکشن اکتوبر میں ہونگے یا نہیں،حکومت اور اپوزیشن کو تجویز دی اپریل یا مئی میں کرا لیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت تھی، ملک میں کسی کو بھی صرف الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان، اداروں اور عدلیہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا.
ڈاکٹر علوی کی رائے تھی کہ ملک کو مشکل وقت کا سامنا ہے، ہمیں چاہیے کہ ایک نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیں، آئیں ایسا ملک بنائیں جس کے ہم مستحق ہیں۔ ‘ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اداروں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی نہیں، ملک میں کسی کو بھی جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان ہے، اگر کسی مخصوص شخص کو ہدف بنانا ہو تو اس کیخلاف کوئی بھی الزام عائد کرکے متعلقہ قانون نافذ کر دیں تاکہ اسےجیل میں ڈالنا یقینی ہو جائے۔
صدر نے کہا کہ عدالتوں نے آمر کو آئین میں تبدیلی کرنے کی اجازت دینے کے لیے فیصلے سنائے، انہوں نے ریکو ڈک کا حوالہ دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو 7 ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہاکہ اگر آپ عدلیہ پر تنقید کریں گے تو اس سے پوری عدلیہ کا وقار کم ہوتا ہے اگر آپ فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس سے پورے ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے اور آپ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے وقار کو نقصان ہو۔
ملک میں جاری افراتفری کے حوالے سے صدر علوی نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن کے مخالفین کودوسرا این آر او چاہیے تھا لیکن جب ان کے مخالفین کہتے تھے کہ انہوں نے اپنے کیسز ختم کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ تاہم ڈاکٹر علوی کا کہنا تھا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے رہنماؤں کے مقدمات کے خاتمے کی کوششیں لازمی کی ہیں۔
جب صدر مملکت سے عمران خان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ پر عائد کیے گئے الزامات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ دوسرے فریق کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ وہ نیوٹرل ہو چکے ہیں اور وہ لوگوں پر دباؤ نہیں ڈال رہے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی حد تک دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
صدر مملکت نے اتفاق کیا کہ معیشت میں اصلاحات اور اس کی بحالی بنیادی مقصد ہونا چاہیے اور اس حد اور اس مقصد کیلئے وہ معاف کرکے بھول جاؤ کی پالیسی اختیار کرنے کیلئے تیار ہیں تاکہ ملک کے فائدے کیلئے نئی شروعات ہو سکے۔