انتخابی نشان اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کی واپسی کیخلاف پشاور ہائیکورٹ دائر درخواست پر جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی سماعت کررہے ہیں۔ فیصلہ کن مرحلہ شروع ہو گئے ہیں
تفصیلات کے مطابق عدالت میں فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ کیس کے حوالے سے پیش ہوئے۔ نوید اختر وکیل کا دوران سماعت کہنا تھا کے سپریم کورٹ میں آج بھی کیس لگا ہے۔ ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے انہوں نے بتایا وہ وہاں کیس نہیں کررہے۔ اگر یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر کل پرسوں کی تاریخ دیتے۔
قاضی جواد ایڈووکیٹ نے بھی اظہار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات صوبے کی حد تک ہی محدود ہیں اور ہائی کورٹ صرف صوبے کے معاملات میں دخل ہو سکتا ہے۔ جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا الگ الگ ہر صوبے میں کیس کرنا چاہیے تھا، انتخابات پشاور میں ہوئے تو یہاں کیسے کیس نہیں کرسکتے؟ جسٹس اعجاز انور نے بتایا کہ جو الیکشن ہوئے اس میں پورے ملک کے ممبران منتخب ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک، جواب میں قاضی جواد ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کی واپسی کے حوالے سے جاری سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کلعدم ہونے پر آپ کو چاہیئے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیئے تھا۔قاضی جواد ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئ