طالبان کی حکومت میں افغان سرزمین پر انسانی حقوق کی سنگین قسم کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ سامنے آگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کےبعد سے افغانستان مختلف شعبے تباہی کا شکار ہیں اور افغان طالبان کی انتہاء پسندانہ پالیسی اور سخت پابندیوں نےافغان عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔
طالبان حکومت نےاقتدارپرقبضے کےبعد افغانستان کو کنٹرول کرنے کے لئے انتہاء پسندانہ طریقہ کارکو اپنایا ہے نتیجتاً افغانستان کومختلف قدرتی آفات بشمول سیلاب، زلزلے اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سال 2024ء کی رپورٹ کےمطابق افغان سرزمین پر 2022ء میں امداد کےمستحق افراد کی تعداد 18.4 ملین تھی جو اب بڑھ کر 18.4 ملین سے تقریباً 29 ملین ہو چکی ہے۔وسائل کی کمی کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندے غذا کی قلت اور شدید قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔
افغان طالبان نےخواتین پرمختلف قسم کی سخت پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں،ملازمت کرنا، تعلیم،اکیلے سفر کرنا اوردیگر معاشرتی سرگرمیوں پرپابندی کے باعث افغان خواتین کی آبادی کا بڑا حصہ شدید متاثر ہے۔
افغان سرزمین میں رہنے والے ہزارہ، ازبک اورتاجک قبائل کو نسلی،لسانی اورمذہبی امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔سال 2023ء افغانستان کے صوبہ اورزگان میں 6 افراد کومذہبی انتہاء پسندی کا نشانہ بناتے ہوئے انتہائی بے دردی سے قتل کیاگیا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اگست 2021 سے مئی 2023 کے درمیان 3,774 شہری ہلاکتیں ریکارڈ کیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2022 اور جولائی 2023 کے درمیان تشدد، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کے تقریباً 1600 واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔
نومبر 2022 سے اپریل 2023 کے درمیان 274 مرد اور 58 خواتین کو سرعام کوڑوں کی سزا سنائی گئی جو افغان طالبان کی انتہاء پسند پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔افغانستان میں شیعہ، سکھ، ہندو، عیسائی اور اسماعیلی سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی مسلسل تعصب اور نسلی امتیاز کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔افغان طالبان نے آزادی اظہار اور شعبہ صحافت کو بھی اپنے تعصب کی لپیٹ لیتے ہوئے طالبان حکومت پر تنقید کرنے والے درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا اور ساتھ ہی ان کو ہراسگی کا شکار بھی بنایا گیا۔
سال 2021 سے 2023 کے درمیان 64 صحافیوں کو طالبان حکومت نے حراست میں لیا جبکہ طالبان حکومت کی بڑھتی پابندیوں کی وجہ سے 80 فیصد سے زائد خواتین شعبہ صحافت چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔اگست 2021 سےاگست 2023 کے درمیان نصف سےزائد رجسٹرڈ میڈیا ہاؤسز کوافغانستان میں مکمل طور پر غیر فعال کرا دیا گیا۔عوام کو افغانستان میں ہر طرح کےجبرو تشدد کا سامناہے جبکہ انصاف کا ملنا بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ طالبان حکومت اپنی عوام کا فائدہ سوچنے کی بجائے ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں کو تعاون مہیا کرکے علاقے میں دہشت گردی پھیلا رہی ہے۔