اسلام آباد (تحسین اللہ تاثیر) سوات کے جنگلات میں آ گ کے واقعات کس وجہ سے پیش آتے ہیں۔اہم وجوہات سامنے آگئی ہیں۔
رواں سال خیبرپختونخوا کے سیاحتی علاقے سوات میں پہاڑوں پر آگ لگنے کے 165 واقعات سامنے آئے ۔صرف ایسی مہنے یعنی جون میں 12 مختلف پہاڑوں پر آگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ۔ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو سوات کےترجمان شفقہ گل کے مطابق 3جون کو سیپل بانڈئی اور شیر اطراف کے پہاڑی سلسلے پر آگ لگ گئی تھی،4 جون کو فضاگت، 13 جون کو بھی فضاگت اور چارباغ بنجوٹ کے پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔اسی طرح 14 جون کو کبل سیگرام، 17 جون کو فتح پور اور 18 جون کو خوازہ خیلہ مشکومئی کے پہاڑی سلسلے پر آگ لگی تھی۔19 جون کو چار مختلف مقامات مٹہ شیپوڑہ، پانڑ، کبل سیگرام اور خوازہ خیلہ جانو کے پہاڑوں پر آگ لگ گئی تھی۔ اسی طرح 20 جون کو بریکوٹ املوک درہ کے پہاڑی سلسلے پر آگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔
جنگلات صرف درختوں کے ذخیرے کا نام نہیں ہوتا، یہ ایک پورا ماحولیاتی نظام ہوتا ہے جس میں درخت، مختلف گھاس پھونس، چرند پرند، جانور مل کر رہتے ہیں۔ یہ گھریلو اور کاروباری استعمال کے لیے لکڑی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہیں لیکن بدقسمتی سے سیکڑوں سال پرانے درخت جن میں چیتر، چنار،دیودار ،دیار ، چیڑ وغیرہ شامل ہیں یوں جل کر راکھ بنتے جا رہے ہیں۔
جنگلات میں آگ کیوں لگائی جاتی ہے؟
پروفیسر نفیس نے پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات کے اوپر تحقیق کی ہے۔ان کے مطابق زیادہ تر آگ مقامی لوگ خود لگاتے ہیں،وہ جنگلات میں جان بوجھ کر آگ لگانے کا سبب باہم دشمنی کے علاوہ بہت حد تک شاملات کے قانون کو بھی قرار دیتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ سوات میں ملکیت جنگلات کا قضیہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے کہ یہ جنگلات حکومت کی ملکیت ہیں یا عوام کی ذاتی ملکیت؟
16ویں صدی میں سوات پر یوسفزئی قابض ہوئے تو اُنھوں نے پہاڑوں یا خاص جنگلات کو متعلقہ گاؤں یا علاقے کے شاملات (مشترکہ ورثہ) کے طور پر مشترک رکھا۔درختوں کی فروخت کا حق ان کو حاصل تھا جو متعلقہ گاؤں یا علاقے کی زمین کے ملکیتی حقوق رکھتے تھے ۔سنہ 1969 میں ریاست سوات پاکستان میں ضم کر دی گئی لیکن ریاست نے ملکیت جنگلات سے متعلق مذکورہ بالا حیثیت وصورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھا۔
پروفیسر نفیس بتاتے ہیں کہ مقامی افراد اس قانون سے خوش نہیں ہیں کیونکہ اس قانون کے مطابق جنگلات سرکار کی ملکیت ٹھہرتے ہیں اور زرعی زمین لوگوں کی۔مقامی لوگوں کو جہاں موقع ملتا ہے پہاڑوں کو آگ لگا کر جنگلات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جنگلات سے صاف ہونے والی زمین کو زرعی زمین میں تبدیل کر کے وہ اپنا قبضہ برقرار رکھیں۔
اس کے علاوہ ایک قانون جو وہاں رائج ہے اگرچہ وہ کسی کاغذ پر تحریر نہیں ہے مگر سب کا اس پر اتفاق ہے، اس کے مطابق جو شخص بھی پہاڑوں کے دامن میں درخت اور جھاڑیاں صاف کر دے تو اس زمین پر اس کا حق مانا جاتا ہے خاص کر جب زمین پر کوئی درخت نہ ہو تو وہ شخص اسے زراعت کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
ٹمبر مافیا بھی ملوث ہیں
مقامی عمائدین بتاتے ہیں کہ ٹمبر مافیا کا بھی یہی طریقہ واردات ہے۔وہ مقامی لوگوں کے ذریعے پہاڑوں کو آگ لگا دیتے ہیں، جھاڑ جھنکاڑ جل جاتے ہیں، درخت عموماً بچا لیے جاتے ہیں لیکن چونکہ دھوئیں سے کالے ہو چکے ہوتے ہیں تو یہ مشہور کر دیا جاتا ہے کہ یہ درخت جل چکا ہے، بوسیدہ ہو رہا ہے لہٰذا اسے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک مقامی شہری نے اخبار خیبر کو بتایا کہ قانون موجود ہے جس کے تحت سزا اور جرمانہ دونوں ہو سکتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے موسم کو الزام دے کر محنت سے بچ جاتے ہیں اور شاذ و نادر ہی کوئی تفتیش ہوتی ہے۔
آگ بجھانے میں مشکلات
ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو سوات کے ڈی ای او شیر دل نے اخبار خیبر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں جن پہاڑوں پر آگ لگ جاتی ہے وہاں سڑکیں نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے فائر بریگیڈ گاڑی نہیں جاسکتی تو مجبوراً ریسکیو ٹیم روایتی طریقے سے آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ روایتی طریقے سے آگ بجھانے پر وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور اس دوران نقصان بھی زیادہ ہوجاتاہے۔
شیردل نے مزید کہا کہ سوات کے پہاڑوں پر جتنے بھی آگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ان میں قدرتی طور پر بہت کم آگ لگی ہے۔ زیادہ تر یہاں سیاح یا گڈریاں قیام کے دوران آگ لگاتے ہیں یا کوئی اور سرگرمی کرتے ہیں جس کی وجہ سے آگ لگ جاتی ہے۔شیردل کےمطابق ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی لوگ اس موسم میں خشک گھاس جلاتے ہیں تاکہ ساون میں تازہ گھاس اوگ جائے تو اس سے بھی آگ بے قابو ہوجاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک آگ کے واقعات میں قیمتی درختوں کو نقصان تو نہیں پہنچا لیکن جنگلی حیات ضرور متاثر ہوئی ہے۔
محکمہ جنگلات سوات کے حکام کا موقف
جب اخبار خیبر نے پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات کے حوالے سے متعلقہ محکمے کے افسران سے پوچھا تو ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر لوئر سوات عثمان کا کہنا تھا کہ رواں سال آگ کے جتنے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں وہ سارے گرم موسم کی وجہ سے ہیں۔کوئی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے کہ کسی نے ارادتاً آگ لگائی ہو۔ اکثر ایسا ضرور ہوتا ہے کہ یہاں کے جنگلات میں خشک گھاس ہوتا ہے اور سیاح آکر کوکنگ کرتے ہیں یا کوئی جلا ہوا سگریٹ پھنکتا ہے تو اس سے آگ لگ جاتی ہے لیکن ایسے موقعوں محکمہ جنگلات کے اہلکار پہنچ جاتے ہیں اور آگ کو قابو کرلیتے ہیں۔
ڈی ایف او کالام صدیق خان نے اخبار خیبر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرمی کے موسم میں ہر سال ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، فارسٹری میں 15 مئی سے 15 جولائی کے مدت کو فائر سیزن کہتے ہیں اس دوران آگ لگنے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبے کے بعد جنگلات تیزی سے گنے ہورہے ہیں اور وہاں گھاس بھی زیادہ ہوگیا ہے جو اس موسم میں خشک ہوتا ہے اور اسی گھاس میں مختلف وجوہات کے بنا پر آگ لگ جاتی ہے۔ چاہئے وہ گرم موسم کی وجہ سے ہو یا کوئی ادارتاً لگاتا ہے۔اگر کوئی ذاتی مقصد کیلئے جنگل میں آگ لگاتا ہے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے ان پر جرمانہ عائد کرنے کیساتھ ساتھ مجرمان کو جیل بھی بھجاتا ہے۔
سوات کے جنگلات میں درختوں کی کٹائی
اگر ایک طرف آگ لگنے سے جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری طرف درختوں کی کٹائی میں بھی اضافہ دیکھنےکوملا ہے۔سوات میں نایاب درختوں کی کٹائی نہ صرف مقامی طور پر ایندھن کے لیے، بلکہ پیسے کمانے کے لیے بھی کی جاتی ہے اور یہ کام زیادہ تر علاقے کے بااثر لوگ ہی کرتے رہتے ہیں۔ ٹمبر مافیا ہر سال کروڑوں روپے مالیت کے درخت کاٹ کر اس سے اربوں روپے کا منافع حاصل کرتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں کا قدرتی حسن متاثر ہو رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ فارسٹ افیسر اپر سوات شاہ خالد کا موقف
اخبار خیبر سے بات کرتے ہوئے ڈی ایف او اپر سوات شاہ خالد کا کہنا تھا کہ سال 2017 میں خیبرپختونخوا حکومت نے پرائیوٹ لینڈز کیلئے ایک پالیسی متعارف کی تھی جس تحت زمین کے مالکان کو30 فیصد جنگلات کی کٹائی کی اجازت ہوگی اور وہ لکڑیاں ملک کے کسی بھی کونے سمگل کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو زمینیں مشترکہ ہے یا کسی کے ذاتی ملکیت ہے تو اس پر 40، 50 سال پہلے دیار کے درخت لگائے گئے تھے اب وہ ایک خاص عمر تہ پہنچ چکی ہے اور جنگل کی بہترین نشونما کیلئے کمزور درخت کاٹے جاتے ہیں تاکہ باقی جنگل ترقی کرسکے۔اس کٹائی کیلئے متعلقہ فرد محکمہ جنگلات کو درخواست دیتا ہے جس کے بعد محکمہ کے لوگ جنگل جاتے ہیں اور جو درخت خشک ہو یا کمزور ہو تو اس پر نشان لگاکر کاٹنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد بھی یہی ہے کہ باقی جنگل کی خوبصورتی برقرار رہے اور آگ کے خطرات کم ہوجائے۔
اس سلسلے میں ڈی ایف او لوئر سوات عثمان نے اخبار خیبر کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر جو تصاویر وائرل ہورہے ہیں وہ سارے ووڈ لاک پالیسی کے تحت کاٹے کئے درختوں کی ہے۔اور یہ غیرقانونی نہیں بلکہ قانونی ہے اور محکمہ اس کا اجازت دیتا ہے۔ اگر کہیں غیرقانونی کٹائی ہوتی ہے تو اس کا ڈیمیج رپورٹ تیار کیا جاتا ہے اور متعلقہ محکمہ ملزمان کے خلاف کارروائی کرتاہے۔
حکومت نے کیا اقدامات اٹھائیں؟
گزشتہ ہفتہ کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود نے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پر قابو پانے کے حوالے سے ایک اجلاس بلائی۔ انہوں نے جنگلات کے قریب سگریٹ نوشی،آگ جلانے، اتش بازی، ہوائی فائرنگ، کوڑا کرکٹ پھینکنے کے خلاف دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کرنے کی ہدایت جاری کی۔انہوں نے ہر ضلع میں ایک اسسٹنٹ کمشنر بطور فوکل پرسن محکمہ جنگلات کو فراہم کرنے،عوامی آگاہی مہم چلانے،خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی،آگ جلانے کی روک تھام کے لئے محکمہ مال کے اہلکاروں کو متحرک رکھنے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں۔
جنگلات میں آگ لگنے کے نقصانات اور حفاظت کیسے کرے
ماہر ماحولیات ڈاکٹر طارق روف نے اخباز خیبر کو بتایا کہ دنیا میں گرم موسم کی وجہ سے جنگلات میں آگ کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن اگر سوات کی بات کی جائے تو یہاں موسم اتنا گرم نہیں ہوتا کہ قدرتی طور پر اگ لگ جائے۔ البتہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی لاپراہی کہ وجہ سے اس موسم میں آگ جلدی پھیل جاتی ہے کیونکہ ان جنگلات میں نختر اور خشک گھاس زیادہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر طارق روف نے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جنگل میں آگ لگنے سے جانور وں کی منتقلی سے جنگلی حیات متاثرہوتی ہے۔شمالی علاقہ جات کے جنگلات میں زیادہ تر وہ درخت ہے جس کے بیچ سے مزید پودے نکل اتے ہیں لیکن آگ لگنے سے وہ چھوٹے پودے بھی جل جاتے ہیں۔ جو جڑی بوٹیاں دوائیوں میں استعمال ہوتی ہیں وہ بھی جل کر ختم ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ نایاب درخت جس کے اوگنے میں سیکڑوں سال لگ جاتے ہیں لیکن آگ لگنے سے چند لمحوں میں جل کر راکھ بن جاتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کا بھی باعث بنتا ہے۔ بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت بھی جو پودے لگائے گئے ہیں وہ محنت بھی ضائع ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر طارق روف کا مزید کہنا تھا کہ جنگلات میں آگ لگنے سے جانوروں کی خوراک بھی ختم ہوجاتی ہے۔مائیکرو ارگینزیم کا بھی صفایا ہوجاتا ہے جس کا ماحول پر برا اثر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ جنگل ختم ہونے سے لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور ایسے کئی سارے نقصانات ہیں جو ماحول پر اثرانداز ہوتے ہین۔ ڈاکٹر طارق روف نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ پاکستان پہلے سے موسمیاتی تبدیلی سے بہت متاثر ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آگ لگنے کے جنتے بھی وجوہات ہیں لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کرے۔جو جان بوجھ کر آگ لگاتے ہیں اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے قوانین مزید سخت بنائے اور اس پر عمل درامد یقینی بنائیں۔