اسلام آباد (مدثر حسین) تیرہ اگست کی شام بازار سے گزرتے ہوئے جگہ جگہ جشن آزادی کا سامان جھنڈیاں، بیج، ٹوپیاں، اور پو پو کرنے والے باجے بیچنے والوں کی سٹالز پر رش دیکھ کر میرے بہت سارے خیالات غلط ثابت ہوئے، جوان ، بچے اور کچھ ادھیڑ عمر لوگ سٹالز پر کھڑے سامان خرید رہے تھے،انکی انکھوں میں چمک، ازادی کو لیکر انکے جذبات جان کر مجھے جھٹکا لگا، کیونکہ اس سے پہلے میرا خیال تھا کہ اس شدید مہنگائی، غربت ، بے روزگاری، استحصال کے ہوتے ہوئے کون پاگل ہوگا جو جشن آزادی منائے گا، لیکن چودہ اگست سے متعلق عوام میں جوش وخروش دیکھ کر مجھے لگا کہ شائد پاگل میں ہی ہوں، جو وقتی مسائل کو جواز بنا کر وطن بیزار ہوچکا ہوں، یقیناً اپ میں سے بہت سے لوگ اس بلاگ کے ابتدائیہ کو پڑھ کر سمجھتے ہوں گے کہ شائد میں آگے جا کر مطالعہ پاکستان ٹائپ لیکچر دینے والا ہوں، لیکن نہیں، نہ میں کچھ لیکچر دوں گا، نہ ہی اپ کو جشن آزادی کی قدر کرنے کی نصیحتیں جھاڑوں گا، کیونکہ اکثریتی عوام کی طرح میں بھی، وطن سے بہت کچھ امیدیں لیکر بڑا ہوا، زمانہ طالبعلمی میں، میرا بھی خیال تھا کہ ایک شاندار کرئیر میرا منتظر ہوگا، میں بھی سوچتا تھا کہ پریکٹکل زندگی میں داخل ہوکر میں سماج میں جاری بہت سے غلط کام روکوں گا۔
لیکن جوں ہی پوسٹ گریجویشن کی ، تلاش معاش شروع ہوئی، تو اندازہ ہوگیا کہ تعلیمی ڈگری سے زیادہ یہاں ریفرنسز کی اہمیت ہے، عقل سے زیادہ کم عقلی کی قدر ہے، علم پر جہالت کو فوقیت دی جاتی ہے، سفارش بڑی دلیل ہے کہ آپ کتنے پانی میں ہے، اسی طرح جب چاروں طرف نظریں اٹھی تو غربت کا سمندر دیکھا، سماجی ، سیاسی، معاشی، مذہبی، اخلاقی غرض ہر میدان میں پاکستان کو پاتال میں گرا ہوا پایا، اسی لیے جب بھی چودہ اگست آتا ہے، تو میرے اندر اس آزادی سے بیزاری پیدا ہوتی ہے، بہت سو کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ قائداعظم اور مسلم لیگ نے ہمیں گوروں سے ازادی دلوا کر دیسی گوروں کی غلامی میں دیا ہیں، جو لوگ برٹش سامراج کے دور میں بڑے بڑے نیتا تھے، آج ان کی نسلیں ہماری حکمران ہیں، غرض ایسی سوچوں کے بھنور میں پھنس کر میں لفظ آزادی کو دھوکا سمجھ رہا تھا، لیکن شام کے وقت بازار کا چکر لگانے کے بعد مجھے لگا کہ یہ تمام گلے شکوے ایک طرف، اور عوام کی آنکھوں میں پاکستان کو لیکر پائے جانے والے سپنے دوسری طرف، یہ پچیس کروڑ لوگ چاہے کتنے ہی نظام سے بیزار ہوکر پاکستانیت کا اظہار اسی طرح کھل کر نہیں کر پا رہے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک کے عوام اپنی دھرتی سے کرتے ہیں، لیکن یقین مانیے یہ لوگ دل سے اپنے دیس کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں، جتنا کہ کوئی بھی محب وطن قوم ہوسکتی ہے، اس لیے کیونکہ ان پچیس کروڑ لوگوں کو ادراک ہیں،کہ پوری دنیا میں پاکستان ہی وہ گوشہ ہے، جسے وہ اپنا وطن کہہ سکتے ہیں، جس کی مٹی کو سونگھ کر انہیں سکون آتا ہے، یہ جو اورسیز پاکستانی ہوتے ہیں، یہ ہماری نظروں میں بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جو ملک چھوڑ کر اپنی قسمت بناتے ہیں، لیکن کبھی آپ نے انکے دلوں میں جھانک کر وہ تڑپ دیکھی ہے جو بیرون ملک رہتے ہوئے انہیں ہر دم بے چین رکھتی ہیں، تبھی تو پاکستان کا نام سن کر انہیں جو اپنائیت محسوس ہوتی ہیں، ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہی۔
نظام سے گلے شکوے بالکل جینوئین ہیں، لیکن پاکستان سے دلی محبت اس سے بھی زیادہ جینوئن ہیں، تبھی تو ارشد ندیم نے ایک مڈل جیت کر کروڑوں لوگوں کے بجھے دلوں میں نئی امیدیں جگا دی، یہ قوم کب سے ایسی خوشخبریوں کی آس لگائے بیٹھی ہے، اگر حکمران طبقات ذرا بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا کر ڈلیور کرنا شروع کردیں، تو مجھے یقین ہے لوگ گروہوں کی شکل میں ملک چھوڑنے کی بجائے جوق درجوق باہر سے واپس اپنے ملک کی سدھار میں حصہ ڈالنے کو آئیں گے، خدا کریں اس ارض پاک پر اترے ، وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔