افغانستان کو طویل عرصے سے عالمی سلامتی کے خدشات کے ایک اہم گٹھ جوڑ کے طور پر پہچانا جاتا رہا ہے، اس کی پرتشدد تاریخ، جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں اور دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کی وجہ سے عالمی سلامتی کے خدشات کے لیے ایک ہاٹ سپاٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ملک میں تشدد اور عدم استحکام پھر سے پیدا ہوا ہے۔
طالبان دوحہ معاہدے میں بیان کردہ کلیدی وعدوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی بجائے طالبان حکومت نے کم از کم 25 دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں، جس سے بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں سے 17 گروپ بنیادی طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نسلی تقسیم نے تاریخی طور پر افغانستان کے سماجی تانے بانے کی تعریف کی ہے، جس کی آبادی بنیادی طور پر پشتون 42فیصد ، تاجک 27 فیصد ، ہزارہ 9فیصد ، ازبک 9 فیصد ، ترکمان اور بلوچ سمیت چھوٹے گروہوں پر مشتمل ہے۔ طالبان کی حکومت جس پر پشتون رہنماؤں کا بہت زیادہ غلبہ ہے، افغان عبوری حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان پر پشتون آبادی کا حق ہے اور اس موقف کو بنیاد بناکر عبوری حکومت نسلی گروہوں کے ساتھ گہری دشمنی کا شکار ہے۔
کچھ پشتون قوم پرست جو پاک افغان سرحد کی دونوں طرف آباد ہیں وہ "لراو بر یو افغان” کے نعرے پر زیادہ زور دیتے ہیں جو ان کی ناکام سیاست کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نقطہ نظر آبادیاتی حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ پاکستان میں پشتون آبادی تقریباً 45 ملین ہے جبکہ افغانستان میں13 ملین ہے۔
عالمی طاقتوں نے دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششیں کیں لیکن بالآخر ناکام رہیں، امریکا افغان معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے دو ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی بری طرح ناکام ہوا ہے۔
جیسا کہ افغانستان اندرونی کشمکش سے دوچار ہے اور دہشت گردی کا خوف بڑھ رہا ہے، نسلی تقسیم اور مستقبل کی حکمرانی کی تشکیل میں ان کے کردار کے بارے میں عالمی برادری کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔