اسلام آباد(ویب ڈیسک) بانی پی ٹی آئی کے بیانات کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے دیگر رہنما بھی یوٹرن پر یوٹرن لینے کے ماہر نکلے،ایبسلوٹلی ناٹ کے نام نہاد بیانیہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دیگر رہنماوں کے بعد زلفی بخاری بھی میدان میں آگئے ۔بانی پی ٹی آئی نے جہاں ایک طرف اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام سب سے پہلے امریکہ پر لگایا اور معمول کے خفیہ دستاویز کو ہوا میں لہراتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش کا نام دیا وہاں دوسری جانب اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بنی گالہ میں امریکی کے اعلیٰ حکام سے نہ صرف ملاقاتیں کرتے رہے بلکہ امریکی پر لگائے گئے الزامات بھی واپس لیتے ہوئے یوٹرن لیا اور پھر اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر لگادیا ۔بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ اس کے بعد بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہا اور اس کے بعد الزام سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیرداخلہ محسن نقوی پر لگادیا، اس کے بعد یہی الزام پی ڈی ایم کی حکومت، پھر شہبازشریف ،اس کے بعد امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر بھی یہی الزام لگاتے رہے ۔
اب جبکہ امریکہ میں صدارتی اانتخابات کا نتائج سامنے آ چکے ہیں اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں ۔ٹرمپ کی کامیابی نے پی ٹی آئی رہنماوں کے اندر ایک جان سی ڈال دی ہے اور وہ امید کر بیٹھے ہیں کہ ٹرمپ کی موجودگی کے باعث بانی پی ٹی آئی جیل سے ضرور رہا ہونگے۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی کے دست راست زلفی بخاری نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستانی حکومت پی ٹی آئی کے احتجاج کا دباو برداشت نہیں کر سکے گی اور یوں اس احتجاج کے باعث عمران خان اڈیالہ جیل سے فوری رہا ہو جائیں گے ۔زلفی بخاری کے مطابق اگر اس احتجاج کے باعث بھی بانی پی ٹی آئی رہا نہ ہوئے تو پھر پاکستان کی حکومت امریکی دباو برداشت نہیں کر سکے گی ۔زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ پھر بھی ہمارا مذکورہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو ہم امریکی حکومت سے مطالبہ کرینگے کہ وہ پاکستان پر پابندی عائد کریں تاکہ عمران خان کو جیل سے رہا کیا جائے ۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف بانی پی ٹی آئی ملک میں قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود نہ صرف قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک موقع ضائع نہیں کرتے بلکہ اب تو حد ہی ہو گئی کہ پارٹی کو اپنی رہائی کیلئے ایسے ٹاسک دیئے ہیں جس کے ’’سائیڈ افیکٹس‘‘ سے خود بانی پی ٹی آئی بھی واقف نہیں ۔ وہ خود ایک طرف پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف ایبسلوٹلی ناٹ کی مہم چلا چکے ہیں بلکہ خود بھی کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ کیا پاکستان کوئی غلام قوم ہے جو امریکی مداخلت پر خاموش رہے گی ؟
اگر عمران خان کو حکومت سے نکال باہر کرنے میں امریکہ کی مداخلت شامل تھی تو پھر دیگر لوگوں پر اس کے الزامات لگانے کا کیا مقصد تھا ؟اگر یہ الزام غلط تھا تو پھر امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات بنانے کے بیان کی وجہ کیا تھی؟اگر خان صاحب قانون اور آئین کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو وہ بتائیں کہ آج تک انھوں نے خود کہاں کہا ں او ر کس کس جگہ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ہے ؟رہی بات یہ کہ لوگ ان کے بیانیے میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اپنے کارکنوں کو انہوں نے غلط بیانی کر کرکے ایسی تربیت کی ہے کہ ان کے کارکنوں کو اب ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بھی بات غلط محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ اس ان کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو حرف آخر سمجھتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کارکنوں کو سیاست کی سمجھ آنے میں ابھی بہت وقت لگے گا لیکن اس سے قبل بانی پی ٹی آئی کو خود سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔2014 کے دھرنوں کے بعد جس طرح خان صاحب نے جارحانہ سیاست شروع کر رکھی ہے کیا اس کا ان کو کوئی فائدہ بھی ہوا کہ نہیں ،ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں رہنے کے بعد بھی خان صاحب میں سیاسی بلوغت اسی جگہ کھڑی نظر آ رہی ہے جہاں 2014 کے دھرنوں میں تھی ۔