یہ 2009 کی بات ہے پشاور یونیورسٹی کےشعبہ صحافت نے ایک بین الاقوامی ادارے کےتعان سے ایک ٹریننگ کا اہتمام کیا تھا،جس میں چیدہ چیدہ قبائلی صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا،ٹریننگ کے اختتامی سیشن میں طالبان بارے پوچھے گئے ایک سوال پر(تب طالبان حالیہ دور سے بھی زیادہ پاورفل تھے)ایک قبائلی صحافی نے ٹرینر سے کہا کہ بھئی ہمیں بتایا گیا تھا کہ طالبان کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی اس لئے میں اپنی تقریر میں طالبان کا ذکر کرنے سے رہا،جب میری باری آئی تو میں نے اس صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی نے بالکل ایسا ہی کیا جیسا جب جاپان میں ناگاساکی یا ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے گئے تب ایک رپورٹر کیمرے کے سامنے آیا ہوگا اور اس نے کہنا شروع کردیا ہوگا کہ جب ایٹم بم گرایا گیا تو یہاں موسم بہت خوشگوار تھا،ہلکی ہلکی بارش بھی ہوئی تھی،موسم بہار میں بہت سارے پھول بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے،بچے اپنے معصومانہ انداز میں کھیل رہے تھے، جانوروں کو اپنے حقوق حاصل تھےاور لوگ یہ سننا چاہتے کہ بھئی ایٹم بم کی وجہ سے کتنے لوگ لقمہ اجل بنے ہیں؟لیکن موصوف اس ٹاپک پر بات ہی نہیں کرنا چارہے تھے۔
کل ضلع کرم میں پچاس سے زیادہ لوگ زبردستی شہادت کے مرتبے پر پہنچائے گئے،پرسوں بنوں میں ایک خاتون سمیت چار آدمی مارے گئے،تین دن پہلے بنوں میں سیکورٹی ادارے کے اہلکاروں سمیت گیارہ پولیس والے شہید کردئیے گئے،اسی دن سات پولیس اہلکاروں کو اغواء کیا گیا جنہیں بعد میں بازیاب کرایا گیا،روز اس بدقسمت صوبے کے کسی حصے میں پولیس اہلکاروں کو شہید کردیاجاتاہے،ایک قیامت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہاہے،پولیس جوان سڑکوں پر اپنی جانیں،اپنے بچوں کا مستقبل ہاتھوں میں لیکر روز قربانیوں کی نئی تاریخیں رقم کررہے ہیں،ایک ایسی جنگ کا ایندھن پولیس کو بنایا جارہاہے جو پولیس نے شروع ہی نہیں کی ہے،ہر طرف خانہ جنگی کا سماں بندھا گیاہے،روحیں روز کانپ رہی ہیں نئی نئی داستانوں سے،بچے بابا ،بابا کہہ کر کبھی قبروں اور کبھی اپنے سینوں کو مار رہے ہیں،جوان خواتین ہزاروں خواب آنکھوں میں لئے بیوگی کی تاریکیوں میں ڈوب رہی ہیں،مائیں ہاتھ اٹھا اٹھا کر خدا سے مدد مانگتی ہوئی تھک چکی ہیں،آسمان نے بھی جیسے چپ سادھ لی ہے،ایسا لگتاہے کہ موت کے فرشتے نے اس صوبے کے ہر گھر کے ساتھ ایک ایک مکان کرائے پر لیاہے،روز روحوں کی قطاریں بناکر آسمان کو ارسال کرنے میں لگا ہے،سکول اجڑ گئے،مدرسے دہشت کی علامتیں بن گئے،مساجد ویران ہوتی جارہی ہیں،کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے،بے روزگاری نے چاروں طرف پنجے گاڑھ لئے ہیں،سکون نام کی چیز یہاں سے پرواز کرچکی ہے۔
اور ایسے حالات میں یہاں کی منتخب حکومت دھرنے اور احتجاج کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔وہ بھی ایک شخص کی رہائی کی خاطر جیسے خود معلوم نہیں کہ کرنا اور کہنا کیا ہے؟آخر اس شخص کی پارٹی نے اس صوبے،اس ملک کو کیا دیاہے؟یہ سوال کرنا بھی کفر کے زمرے میں شمار ہونے لگاہے۔
لوگ بھوک و افلاس سے مررہے ہیں،اور مونچھوں والی سرکار روز مونچھوں کو شہد لگاکر احتجاج کی کال دینے کی نویدیں سناتے ہیں۔
پولیس اہلکار مر رہے ہیں،سیکورٹی ادارے قربانیاں دے رہے ہیں،معیشت گر رہی ہے،تعلیمی ادارے فروخت اور بند کئے جارہے ہیں،لیکن ان تمام مسائل کا حل اڈیالہ جیل تک ہی محدود کردیا گیاہے،
یہ ہوکیارہاہے؟کسی کے پاس کوئی جواب نہیں،وفاقی حکومت محسن نقوی کی ذات تک محو طواف ہے، پنجاب کی رانی کو میک اپ اور پلاسٹک سرجری کروانےسے فرصت نہیں،نوازشریف باہر جاکر پھر سے سری پائے کھانے میں مصروف ہوگئے ہیں،مولانا فضل الرحمن بابرکت ٹپس دیکر 26ویں ترمیم پاس کرانے کے بعد مصلے پر بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے میں مصروف ہوگئے،زرداری چاروں انگلیاں گھی میں ڈال کر مربے کھانے میں مصروف ہیں،سندھ کی حکومت اپنی شہنشاہیت چلانے کی فکر میں ہے،یہاں کا گورنر روز کسی ماڈل کی طرح سج دھج کر اسلام آباد اور لاہور میں چٹ پٹے کھانے یا بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں،جماعت اسلامی والے اپنی خلافت قائم کرنے کی فکر میں مر رہے ہیں،
چاروں طرف خون،انسانی چھیتڑے نظر آتے ہیں اور ان لوگوں کو فکر ہی نہیں،پولیس سمیت سرکاری اداروں کو مجبور کیا جارہاہے کہ ہمارے ساتھ دھرنے میں شامل ہوجاو ورنہ تمہاری خیر نہیں،ایس ایچ اوز لیول کے پولیس آفیسرز کو نہیں بخشا جارہاہے اور ڈی آئی جیز،ڈی پی اوز کی ٹرانسفرنگ پوسٹنگ کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں۔
اور اس سب کے لئے عوام کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کہ نکلو ورنہ حالات اور بھی برے ہوجائینگے،
خدا کا خوف کریں،یہاں روز اتنی قیامتیں نازل کرائی جارہی ہیں کہ روزمحشر کو بھی شائد ہماری ان حالات پر ترس آئیگی۔ قیامت کے دن مزید اس قوم،اس مٹی پر رحم کرو،اگر قیامت پر یقین رکھتے ہو تو؟ورنہ تم اور تمہاری کارکردگی کی برکت سے زندگی یہاں سے ناراض ہوتی جارہی ہے،خوشی نام کی چیز کب کی چلی گئی ہے،ناچ گانوں،سڑکوں پر ڈانس کرنے سے اگر مسئلے حل ہوتے تو آج خواجہ سراوں اور طوائفوں کے حجرے خوشحالی کی علامت ہوتے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو