پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا حالیہ احتجاج ایک بار پھر پختون کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے سنگین استحصال اور غداری کی تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس احتجاج میں ہونے والی ہلاکتیں، زخمی اور تباہ کن نتائج ان رہنماؤں کے اخلاقی پستی کو ظاہر کرتے ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے پختونوں کو آگے دھکیل دیا، لیکن جب معاملہ ان کے اپنے تحفظ کا آیا، تو انہوں نے اپنے کارکنوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔
رہنماؤں کا فرار اور پختونوں کا قتل عام
رپورٹس کے مطابق اس احتجاج میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت اور ایک ہزار سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ جب احتجاج کی شدت بڑھتی گئی، تو پی ٹی آئی کے رہنما جیسے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی موقع سے فرار ہوگئے۔ ان رہنماؤں نے اپنے حامیوں کو تشویش اور ہلاکتوں کے خطرے میں چھوڑ دیا، جبکہ خود انہوں نے اپنی حفاظت کو یقینی بنایا۔ یہ ایک سنگین سیاسی ناکامی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی غداری ہے جس نے پختون کمیونٹی کے اندر گہرے زخم چھوڑے ہیں۔
پختونوں کی جذباتی استحصال
پختون کمیونٹی کو بار بار یہ غلط تاثر دیا گیا کہ ان کے مسائل کا حل احتجاج میں ہے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ مگر جب کبھی بھی یہ احتجاج شدت اختیار کرتا ہے، ان رہنماؤں کی اولین ترجیح اپنی جان کی حفاظت ہوتی ہے۔ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں ہونے والے پچھلے احتجاجات میں بھی یہی صورتحال سامنے آئی تھی، جب احتجاج کے دوران رہنماؤں نے اپنے کارکنوں کو جان ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج میں حصہ لینے پر مجبور کیا اور خود کسی محفوظ مقام پر پناہ لے لی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پختونوں کی زندگیوں کی قیمت ان کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے۔
علی امین گنڈاپور کی ناکامی اور پختونوں کا دکھ
علی امین گنڈاپور، جو کہ وزیراعلیٰ ہیں، نے اپنے سیاسی کیریئر میں بار بار ایسے احتجاجات کی قیادت کی ہے جن میں کوئی حکمت عملی یا حفاظتی تدابیر نہیں کی گئیں۔ ان احتجاجات کا نتیجہ ہمیشہ خون خرابے، اموات اور زخمیوں کی صورت میں نکلا، لیکن ان رہنماؤں نے کبھی بھی اپنے کارکنوں کی حفاظت کو ترجیح نہیں دی۔ ان کے رویے نے ان کی قیادت کی ناکامی کو مزید واضح کیا ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کی زندگی کو اس سیاسی کھیل میں محض ایک قیمت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
طاقتوروں کی حفاظت، کمزوروں کی قربانی
جب کہ پختونوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے احتجاج کیا، ان رہنماؤں نے ہمیشہ اپنی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی۔ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی جیسے رہنما اپنے بچوں کو ان احتجاجات میں شامل ہونے سے بچا کر خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ان رہنماؤں کے بچے احتجاج میں شامل نہیں ہوتے، تو سوال اٹھتا ہے کہ ان کے حامیوں کے بچے کیوں اس ہلاکت خیزی کا شکار ہو رہے ہیں؟ یہ ایک کھلا تضاد ہے جو ان رہنماؤں کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
پختونوں کی ثقافت اور جذبات کا استحصال
پی ٹی آئی کی قیادت نے ہمیشہ پختونوں کی جذباتی اور ثقافتی شان کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس جماعت نے پختونوں کو یہ باور کرایا کہ ریاست ان کے دشمن کے طور پر کام کر رہی ہے اور ان کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ بیانیہ صرف ایک سیاسی چال ہے جو ان رہنماؤں کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ حقیقت میں، اس بیانیے نے پختونوں میں مزید تقسیم پیدا کی ہے اور ان کی سیاسی اور سماجی حالت کو اور بدتر کر دیا ہے۔
پختونوں کی حفاظت کا سوال
ایک اہم سوال یہ ہے کہ پختون خاندان اپنے جوانوں کو ایسی سیاست میں قربان ہونے کیوں دیتے ہیں جس میں ان کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ پختون خاندانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ایسی سیاست کے فریب سے بچانا چاہیے۔ اگر رہنماؤں کے اپنے بچے ایسی قربانیاں نہیں دے رہے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ عوامی نمائندوں کے پیچھے جانے والے عوام کیوں اس تباہی کا حصہ بن رہے ہیں؟
اتحاد کی طاقت اور تقسیم کا خاتمہ
یہ حالیہ احتجاج ایک سبق ہونا چاہیے جو پختونوں کو سیاست کی تقسیم سے بچنے کی ترغیب دے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پختون اپنے اندر اتحاد پیدا کریں اور ایک مضبوط، یکجہتی سے بھرپور پاکستان کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ پختونوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی قربانیاں محض سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں اور ان کا درد محض سیاسی مفادات کا حصہ بن چکا ہے۔
پاکستان کے تمام عوام کو اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ پختونوں کو اپنے اتحاد کی طاقت کو پہچاننا ہوگا اور اپنی اصل صلاحیت کو سیاسی مفادات کے کھیل میں نہیں گنوانا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ پختون اپنے حقوق کی خاطر ان سیاستدانوں سے الگ ہو کر ایک نیا راستہ اپنائیں تاکہ ایسی مزید قربانیاں نہ ہوں اور ان کے مستقبل کو بہتر بنایا جا سکے۔