اسلام آباد( ارشد اقبال ناصح ) سنگجانی میں پی ٹی آئی کے احتجاج کی ناکامی کا ثبوت اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ چند روز گزرنے کے بعد ہی دوبارہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ڈی چوک میں’’ فائنل کال ‘‘ کا اعلان کرنا پڑا ۔اب تو ’’فائنل کال‘‘ بھی وڑ گئی اب کیا ہوگا؟ اس حوالے سے اب پی ٹی آئی کے پاس کوئی لائحہ عمل یا حکمت عملی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کسی ماتحت عدلیہ کی کسی مقامی عدالت میں کسی کا فیصلہ آجائے تو کیا وہ اپیل کیلئے سپریم کورٹ جانا پسند کرے گا؟بالکل نہیں ، متاثرہ شخص ہائیکورٹ سے رجوع کرے گا ، وہاں سے بھی اس کی مرضی کا فیصلہ نہیں آیا تو اس کے پاس سپریم کورٹ جانے کا راستہ بھی موجود ہوگا ، لیکن اگر اس نے ہائیکورٹ کو بائی پاس کرکے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا اور وہاں سے بھی اس کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہ آیا تو پھر اس کے پاس سارے راستے ختم ہو جایا کرتے ہیں ۔
’’ آ بیل مجھے مار ‘‘کے مصداق ڈی چوک میں فائنل کال کا اعلان کرکے پی ٹی آئی نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے اور اب ان کے پاس نہ صرف سارے راستے بند ہوگئے ہیں بلکہ رہی سہی کسر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بھی پور ی کردی ہے ۔ ڈی چوک احتجاج سے قبل بھی دوبار پرتشدد احتجاج ریکارڈ کئے گئے تھے اور دونوں مواقع پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے ؟اس پر آض تک وہ خاموش ہیں۔ اس کے بعد گنڈاپور کو بار بار پارٹی رہنماوں اور کارکنوں کی سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ جس کے بعد بظاہر معلوم ہو رہا تھا کہ عمران خان کی جانب سے ’’فائنل کال‘‘ کے موقع پر علی امین گنڈاپور اپنی پارٹی کا لاج رکھیں گے اور کارکنوں کو بھی ڈی چوک میں آخر تک موجودگی کے بعد جواب مل جائے گا لیکن گنڈاپور نے فائنل کال کے موقع پر بھی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف خود فرار ہوئے بلکہ پی ٹی آئی کے بقول کئی جاں بحق اور زخمی کارکنوں کو چھوڑ کر چل دیئے ۔
ایک بات تو حقیقت ہے کہ اس بار گنڈاپور صاحب اکیلے فرار نہیں ہوئے بلکہ اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کو بھی فرار کروانے میں کامیاب ہو گئے ۔اگر علی امین گنڈاپور اپنی پارٹی کے بانی چیئرمین کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اپنی گاڑی میں فرار نہ کرواتے تو اس دوران کچھ بھی ہو سکتا تھا ، بشریٰ بی بی ایک بار پھر گرفتار ہو سکتی تھی ،غائب ہو سکتی تھی ،بالکل ایسے ہی جیسے گزشتہ احتجاجوں کے دوران گنڈاپور صاحب خود کئی کئی گھنٹے غائب ہوئے تھے ،اگر بشریٰ بی بی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوتا تو وہ بانی کو جیل جاکر کیا منہ دکھاتے ۔
اور اگر بشریٰ بی بی غائب ہو جاتی تو کیا علی امین گنڈاپور جیل میں بانی سے ملاقات کیلئے جانے کی جسارت کرتے؟ شائد کبھی نہیں ۔یہ ساری چیزین علی امین گنڈاپور کو معلوم تھیں اس لئے وہ پارٹی قیادت اور کارکنوں کی سخت تنقید کو خاطر میں نہ لاکر شیر کے منہ سے نوالہ چھین کر ڈی چوک سے بشریٰ بی بی کو گاڑی میں بٹھاکر فرار ہوئے ۔ویسے بھی محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ۔ یہاں معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ ایک طرف بشریٰ بی بی کی سربراہی میں خیبر پختونخوا حکومت کی وفاقی حکومت سے جنگ جاری تھی اور دوسری جانب علی امین گنڈاپور کو اپنے قائد سے محبت بھی ہے ۔ اس لئے ڈی چوک میں فرار ہونے کو گنڈاپور نے غنیمت جانا اور فرار ہونے کو ہی عافیت سمجھا ۔
اب اگر بات کی جائے کہ تحریک انصاف نے ’’فائنل کال‘‘ کا شوق پورا کرکے کیا کھویا اور کیا پایا تو ہمارا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو گزشتہ احتجاجوں کی طرح ڈی چوک کے پرتشدد احتجاج سے بھی کچھ ہاتھ نہ آیا البتہ ان کے پاس اب احتجاج کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں ۔ اسی لئے گزشتہ روز جب سوشل میڈیا پریہ خبر سامنے آئی کہ پی ٹی آئی نے ایک بارپھر اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تو پی ٹی آئی کی جانب سے فوری اس خبر کی تردید کردی گئی کہ ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا ۔
علی امین گنڈاپور کو خیبرپختونخوا کے عوام کے اصل مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ضلع کرم میں قبائلی جھڑپوں کے دوران 132 افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور 180 سے زائد زخمی ہیں لیکن صوبائی حکومت وہاں صرف جرگہ جرگہ کھیل رہی ہے اور ابھی تک اس بدقسمت ضلع میں حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں ۔اگر اب بھی صوبے کے بنیادی مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو صوبے کے عوام متنفر ہونگے اور پھر صوبے کی سیاست میں ان کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا ۔ عمران خان جیل میں ہیں تو احتجاج کرنے ، وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباو بڑھانے سے وہ کبھی رہا نہیں ہو سکیں گے بلکہ اس طرح کے پر تشدد احتجاج سے خان صاحب کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور یہی چیز خود علی امین گنڈاپور اور دیگر پارٹی قیادت کو سوچنا ہوگی۔ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت خود نہیں چاہتی کہ وہ جیل سے رہا ہو جائیں کیونکہ اگر خان صاحب جیل سے رہا ہوگئے تو پھر ان کی سیاسی دکانداری ختم ہو جائے گی ۔اسی خوف کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت پرامن احتجاج کی کال پر بھی پرتشدد احتجاج کرتے ہیں اوربانی کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں ۔