اسلام آباد( ویب ڈیسک ) ذرائع کے مطابق جب کسی بھی شخص کا پاک فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوتا ہے تو کارروائی کے دوران اُس کے ساتھ ما سوائے اسکے وکیل کے کسی بھی شخص کا رابطہ نہیں ہوتا اور وہ وکیل بھی حلف کے مطابق جب تک ٹرائل مکمل نہیں ہو جاتا، ٹرائل پر کوئی بات چیت نہیں کر سکتا ۔ ذرائع نے کہا کہ کسی بھی اور شخص سے ٹرائل کے دوران بات چیت کو ذرائع کر کے چلانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، یہ بات جو لوگ سسٹم کو جانتے ہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن عام لوگوں کو اسکی آگاہی نہیں ہوتی۔ اِسی لئے انصار عباسی جیسے مہاتما ایسا چورن بیچ کر اپنی دوکان چمکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق آج کل انصار عباسی چند ٹکوں کی خاطر لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگے ہُوئے ہیں اور ’’جنگ‘‘ اور’’ دی نیوز‘‘ میں خود ساختہ آرٹیکلز کے ذریعے اپنا بے تُکّا چورن بیچ رہے ہیں کہ جنرل فیض نے چارج شیٹ میں لگائے گئے سیاسی رابطوں والے چارج کو رد کر دیا ہے ۔
ذرائع نے اس معاملے پر حیرانگی کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کے وہ اس کیس کو بھی ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی عام کورٹ میں لگا ہوا کیس ہے جس میں ادھر اُدھر کی مار کر، ذرائع اور رشتہ داروں کا حوالہ دے کر جُگاڑ لگائی جا سکتی ہے لیکن شاید انہیں یہ پتہ نہیں کہ فوجی عدالت میں لگے ہائی پروفائل کیس اور عام عدالتی کیس میں بہت بڑافرق ہوتا ہے ۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں جرنلزم انصار عباسی جیسے لوگوں کی وجہ سے زوال پذیری کا شکار ہے۔