کوئی نادیدہ قوت پشتون دھرتی کے سماجی شیرازے کو بکھیرنا چاہتی ہے ۔ کوئی غیر مرئی قوت پشتون سرزمین سے روایات کا جنازہ نکالنا چاہتی ہے ۔ کوئی قوت پشتونوں کو ریاستی اداروں اور محکموں کے ذریعے کچلنا چاہتی ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال پشاور کے مضافاتی حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار اور مقامی تھانہ بڈھ بیر میں تعینات ایس ایچ او عبدالعلی المعروف ’’گھبر‘‘ کے درمیان زور و شور سے جاری تنازعہ ہے ۔
ایم این اے شاندانہ گلزار نے ایس ایچ او گھبر پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں ۔ ان الزامات میں جبری گمشدگیاں، اغوا برائے تاوان، خواتین کو ہراساں کرنا، گھر، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنا، سماج دشمن عناصر اور قبضہ مافیا کی سرپرستی کرنا، منشیات فروشی اور ناجائز اسلحے کے دھندے میں ملوث ہونا، بھتہ خوری، چوری، عورتوں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالنا، نابالغ بچوں کی غیر قانونی گرفتاری، تشدد اور ان کی ننگی ویڈیوز بنا کر والدین کو بلیک میل کرنا شامل ہیں ۔ شاندانہ گلزار نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ گھبر افسران کے لیے ’’دھندا‘‘ کرتا ہے اور اس کا تعلق ماضی میں منگل باغ کے نیٹ ورک سے بھی رہا ہے ۔
یہاں یہ دلچسپ مگر افسوسناک حقیقت بھی ہے کہ عبدالعلی کو ’’گھبر‘‘ کیوں کہا جاتا ہے ۔ بھارتی فلم شعلے میں امجد خان نے ایک خوفناک ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا جس کا نام تھا ’’گبّر سنگھ‘‘۔ اسی مناسبت سے عبدالعلی کو لوگ ’’گھبر‘‘ کہتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک پولیس افسر کو ڈاکو کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے، اور یہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پولیس کے اپنے اہلکار اور افسران تک اسے گھبر کہہ کر پکارتے ہیں ۔ مزید حیرانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اسے ایک دہشت گرد کمانڈر کا حلیہ اختیار کرنے کی غیر قانونی اجازت تک دی گئی ہے ۔ اس کا لباس، داڑھی، انداز اور اٹھان ایک قانون نافذ کرنے والے افسر کے بجائے ایک خوفناک مسلح کمانڈر کی تصویر پیش کرتا ہے ۔
شاندانہ گلزار کے مطابق ان کے پاس ان تمام جرائم کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں، اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گھبر جہاں جہاں بھی تعینات رہا ہے، وہاں سے بھی اسی نوعیت کے شواہد اکٹھے کیے ہیں ۔ ان کے ساتھ علاقے کی کئی خواتین، نوجوان، نابالغ بچے، بزرگ اور معززین بھی موجود ہیں جو ویڈیوز، بیانات اور دیگر شواہد کے ذریعے ان الزامات کی تائید کرتے ہیں ۔ شاندانہ گلزار کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی کھڑی ہیں ۔
دوسری طرف پولیس اور ایس ایچ او گھبر کے حامیوں کا مؤقف یہ ہے کہ یہ تمام الزامات سیاسی دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہیں ۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گھبر کے خلاف جب بھی کوئی باضابطہ شکایت آئی تو اس پر کارروائی کے لیے طریقہ کار موجود ہے، مگر کسی افسر کو محض دباؤ کے تحت معطل یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ گھبر کے حق میں بھی مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد نے کوہاٹ روڈ پر مظاہرہ کیا اور اسے ایک فرض شناس اور سخت گیر پولیس افسر قرار دیا ۔ ان کے بقول گھبر نے منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت اقدامات کیے جس سے بعض حلقے ناراض ہوئے اور یہ تنازعہ کھڑا ہوا ۔
شاندانہ گلزار کے مطابق وہ گزشتہ چھ مہینے سے سی سی پی او قاسم علی خان، ایس ایس پی آپریشنز مسعود بنگش اور آئی جی پی پختونخوا ذوالفقار حمید سے مسلسل رابطے میں ہیں اور بقول ان کے، ’’دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے میری جوتیاں گھس گئیں‘‘ مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔ دوسری جانب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کو مکمل جانچ کے بغیر حتمی اقدام نہیں کر سکتے اور الزامات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ انکوائری کے بعد ہی ممکن ہے ۔
افسران بالا کو متحرک کرنے میں ناکامی کے بعد شاندانہ گلزار نے ایک پریس کانفرنس کے بعد اگلے دن کوہاٹ روڈ کئی گھنٹے تک بند کیا ۔ اس موقع پر اعلیٰ پولیس حکام نے گھبر کی معطلی اور انکوائری کی یقین دہانی کروائی جس کے بعد سڑک کھولی گئی، مگر اگلے ہی دن پولیس کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ محکمہ پولیس کسی سیاسی دباؤ میں آکر تبادلہ یا معطلی نہیں کرے گا ۔ اس لب و لہجے پر بھی شاندانہ گلزار نے اعتراضات اٹھائے ۔
بعد ازاں ایک باضابطہ انکوائری کا حکم دیا گیا اور چیف ٹریفک وارڈن ہارون الرشید کو انکوائری افسر مقرر کر دیا گیا ۔ تاہم شاندانہ گلزار کا کہنا ہے کہ انہیں بطور فریق ابھی تک اس انکوائری میں شامل نہیں کیا گیا ۔ پولیس کے مؤقف کے مطابق، انکوائری کا عمل جاری ہے اور تمام فریقین کو موقع دیا جائے گا ۔
شاندانہ گلزار نے مایوس ہو کر پشاور ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں سے رجوع کیا ہے اور ان کے مطابق وہ اپنے آئینی پیٹیشنز کے نتائج کے بارے میں پر امید ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ وہ پختونخوا کو کبھی بھی بلوچستان جیسی صورت حال کی طرف نہیں جانے دیں گی جہاں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل عام ہوتا ہے ۔
یہ معاملہ اب عدالت، سڑک اور سوشل میڈیا تک پھیل چکا ہے ۔ پولیس فورس کے وقار پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور عوام میں تقسیم پیدا ہو گئی ہے ۔ گھبر کے حامی اسے ایک فرض شناس افسر مانتے ہیں جبکہ مخالفین کے نزدیک وہ ایک دہشت گرد کمانڈر کے روپ میں تھانیدار ہے ۔ اس کا حلیہ، اس کا انداز اور اس کی شہرت اس بات کی گواہ ہیں کہ اس نے اپنی وردی کی ساکھ کو بگاڑ دیا ہے اور اس کے اوپر کے افسران نے اس غیر قانونی رویے کو روکنے کے بجائے سہولت فراہم کی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پولیس کے اندر کچھ افسران کی فرعونیت، بلا جواز اہلکاروں کو تحفظ دینا، رشوت ستانی اور قانونی دائرہ اختیار سے تجاوز جیسے عوامل ادارے کے تقدس کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں بعض نوجوان پولیس افسران نے ماورائے عدالت قتال اور غیر قانونی کاrروائیوں کی ایک خطرناک روایت کو بھی جنم دیا ہے، جو آئین اور انسانی حقوق کے منافی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے زہر قاتل ہے ۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی ادارے کے ہزاروں اہلکار اپنی جانیں قربان کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس کے تقدس کو بچایا جائے، ہر افسر کے خلاف الزامات کی منصفانہ جانچ کی جائے، اور اگر کسی پر سنگین الزامات ثابت ہوں تو اسے قانون کے مطابق سزا ملے ۔
درین اثنا بہتر ہوگا کہ گھبر کو انکوائری رپورٹ آنے تک کسی دوسری جگہ تعینات کر دیا جائے تاکہ پولیس اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کم ہو سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ نوجوان سی ایس پی افسران کی ذہن سازی اور تربیت پر گہری توجہ دی جائے ۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ طاقت کا استعمال کبھی بھی فرعونیت کے طور پر نہیں ہونا چاہیے، انہیں سکھایا جائے کہ معاشرتی آداب، انسانی حقوق، عوامی خدمت اور آئینی حدود ان کے منصب کا لازمی حصہ ہیں ۔ جب تک ان کے مزاج میں نرمی، انصاف اور اصول پسندی کو راسخ نہیں کیا جائے گا، ایسے تنازعات اور ایسے کردار پیدا ہوتے رہیں گے جو پولیس کے تقدس اور معاشرتی امن کے لیے خطرہ بنے رہیں گے ۔