پاکستان اپنی آزادی کے بعد سے اب تک چار بڑے صوبوں پر مشتمل ہے: پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان۔ ان چاروں صوبوں میں آج تقریباً 24 کروڑ لوگ آباد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوسطاً ہر صوبہ چھ کروڑ سے زائد لوگوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔ اگر ہم صرف پنجاب کو دیکھیں تو اس کی آبادی ایک سو بیس ملین کے قریب ہے، جو کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنے بڑے صوبے واقعی اپنے عوام کو منصفانہ اور مؤثر طریقے سے سہولیات فراہم کر سکتے ہیں؟
اسی پس منظر میں ایک نئے تھنک ٹینک نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس نے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان کو چار نہیں بلکہ بارہ سے لے کر اڑتیس صوبوں میں تقسیم کر دینا چاہیے تاکہ حکمرانی کو زیادہ قابلِ عمل بنایا جا سکے، وسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں غربت کی شرح 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے، سندھ اور خیبرپختونخوا میں تقریباً نصف آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے جبکہ پنجاب میں بھی تیس فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے ہیں۔ اس سب کے باوجود ہر صوبے کے پاس اربوں روپے کے بجٹ موجود ہیں لیکن نتائج کمزور ہیں۔
اس تجویز نے سیاست میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ زیادہ صوبے بننے سے عوام کو براہِ راست فائدہ ہوگا کیونکہ حکومت ان کے قریب آ جائے گی۔ مثال کے طور پر ایم کیو ایم کے بعض رہنما اسے خوش آئند قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نئے صوبے پاکستان کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بڑی سیاسی جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس تجویز کو "غیر سنجیدہ” یا "خطرناک” کہہ کر مسترد کر رہی ہیں۔ ان کے نزدیک موجودہ حالات میں ایسے بڑے فیصلے مزید مسائل پیدا کریں گے۔
یہاں معاملہ صرف انتظامی نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی بھی ہے۔ صوبے محض نقشے پر کھینچی گئی لکیریں نہیں ہوتے بلکہ شناخت، زبان، ثقافت اور تاریخ سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی صوبے کو تقسیم کرنے کی تجویز اکثر وہاں کے رہائشیوں کو اپنی پہچان پر حملہ محسوس ہوتی ہے۔ یہی نکتہ اس بحث کو ایک سنگین سماجی مسئلہ بنا دیتا ہے، جو محض ترقی یا غربت کے اعداد و شمار سے زیادہ گہرا ہے۔
پاکستان میں صوبوں کی تقسیم کا سوال محض انتظامی اصلاحات کا معاملہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی، سیاسی اور آئینی مسئلہ ہے۔ جب اس پر غور کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بحث کئی پرتوں پر بیک وقت چلتی ہے۔ ایک طرف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ زیادہ صوبے عوام کو حکومت کے قریب لے آئیں گے اور ترقی کے فوائد زیادہ منصفانہ انداز میں تقسیم ہوں گے۔ دوسری طرف یہ خدشہ بھی ہے کہ نئی تقسیم سے لسانی اور علاقائی تنازعات کو ہوا ملے گی اور ملک کے اندر مزید تقسیم پیدا ہوگی۔
سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو صوبے صرف نقشے پر لکیریں نہیں بلکہ شناخت کی علامت ہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نام ان خطوں کی تاریخ، زبان اور ثقافت سے جڑے ہیں۔ جب کبھی کسی صوبے کو تقسیم کرنے کی بات آتی ہے تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا لوگوں کو اپنی صدیوں پرانی شناخت کے ٹوٹنے کا صدمہ برداشت ہوگا؟ مثال کے طور پر سندھ میں یہ بحث خاص طور پر حساس ہے۔ سندھی قوم پرستوں کے لیے سندھ کی وحدت ان کی ثقافتی بقا کا ضامن ہے، لہٰذا صوبے کی تقسیم کو وہ اپنی زبان اور روایت پر حملہ سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں صورتحال اور بھی نازک ہے جہاں پہلے ہی احساسِ محرومی موجود ہے۔ وہاں کے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے وسائل کا استحصال ہوتا ہے لیکن ان کے حصے میں ترقی نہیں آتی۔ ایسے میں اگر بلوچستان کو مزید حصوں میں بانٹا گیا تو یہ خدشہ مزید گہرا ہوگا کہ ان کی اجتماعی طاقت توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے صوبوں کے اندرونی علاقوں میں رہنے والے لوگ اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مسائل صوبائی دارالحکومتوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ جنوبی پنجاب کے عوام کو برسوں سے یہ شکایت ہے کہ لاہور ان کے حصے کے وسائل ہڑپ لیتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقے بھی اکثر شکایت کرتے ہیں کہ پشاور ان پر توجہ نہیں دیتا۔ سندھ کے اندرونی اضلاع کراچی پر الزام لگاتے ہیں کہ وسائل کا زیادہ حصہ شہر پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ خود کراچی والے یہ کہتے ہیں کہ پورے صوبے کا بوجھ انہی پر ڈال دیا گیا ہے لیکن شہر کو اس کے بدلے سہولتیں نہیں ملتیں۔ یہ تضادات ظاہر کرتے ہیں کہ صوبوں کے اندر بھی محرومیاں گہری ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں الگ صوبائی حیثیت ملے تو ان کی آواز زیادہ طاقت کے ساتھ سنی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نئی صوبائی حکومتیں واقعی عوامی مسائل حل کریں گی یا پھر وہی پرانے جاگیردار اور اشرافیہ نئے صوبوں پر بھی قابض ہو جائیں گے؟
سیاسی پہلو اور بھی پیچیدہ ہے۔ پاکستان کی بڑی جماعتوں کے لیے صوبوں کی تقسیم ان کے اپنے اقتدار کے نقشے کو بدلنے کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کی وحدت سے سب سے زیادہ فائدہ ہے، کیونکہ اسی صوبے کی طاقت نے اسے ہمیشہ وفاق میں اہم کردار دلایا ہے۔ اگر پنجاب کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو مسلم لیگ (ن) کی اکثریت بھی بکھر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت کبھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہیں کرے گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی بقا صوبے کی اکائی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر سندھ ٹوٹے گا تو پیپلز پارٹی اپنی سب سے بڑی سیاسی طاقت کھو بیٹھے گی۔ لہٰذا یہ جماعت بھی ہمیشہ اس عمل کی مخالف رہی ہے۔ تحریک انصاف نے ماضی میں جنوبی پنجاب صوبے کی بات کی تھی، لیکن جب اسے اقتدار ملا تو وہ بھی اس مطالبے کو آگے نہ بڑھا سکی، شاید اس لیے کہ اس کے لیے آئینی اور سیاسی رکاوٹیں عبور کرنا ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
اس بحث میں ایک اور پہلو بھی نمایاں ہے اور وہ ہے ادارہ جاتی طاقت کا۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اکثر ایسے منصوبوں کو پسند کرتی ہے جو بڑے صوبوں کی طاقت کم کر کے مرکز کو زیادہ مضبوط کر سکیں۔ اگر صوبوں کی تقسیم کا عمل فوج کی سرپرستی میں شروع ہوا تو عوام کے دلوں میں یہ شکوک مزید گہرے ہوں گے کہ یہ اقدام عوامی فلاح کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہی خدشہ اس تجویز کو متنازع بناتا ہے۔
آئینی طور پر صورتحال مزید دشوار ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق صوبوں کی حدود میں کسی بھی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے اور ساتھ ہی متعلقہ صوبائی اسمبلی کی منظوری بھی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پنجاب کو تقسیم کرنا ہے تو پنجاب اسمبلی کو خود یہ تجویز پاس کرنی ہوگی۔ کیا کوئی حکومت اپنے ہی صوبے کی طاقت کم کرنے پر راضی ہوگی؟ موجودہ سیاسی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کا جواب صاف ہے: ایسا ممکن نہیں۔ اسی طرح سندھ یا بلوچستان کے اندر بھی کوئی اسمبلی اس قسم کی تجویز کی تائید نہیں کرے گی، کیونکہ وہاں کے نمائندے اسے اپنی طاقت اور شناخت پر حملہ سمجھیں گے۔
یہی وہ آئینی رکاوٹ ہے جو اس ساری بحث کو زیادہ تر خیالی منصوبہ بنا دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں عدم اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف عوامی مزاحمت اور احتجاج کا بھی خطرہ ہے جو کسی بھی ایسی تجویز کو عملی طور پر نافذ ہونے سے روک سکتا ہے۔
اگر ایک وسیع سماجی نقطہ نظر سے تجزیہ کریں تو صوبوں کی تقسیم کا سوال دراصل طاقت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا سوال ہے۔ بڑے صوبے طاقتور طبقات کے لیے فائدہ مند ہیں کیونکہ وہ ایک ہی مرکز سے پورے صوبے پر قابض رہتے ہیں۔ لیکن عوام کے لیے یہی ڈھانچہ محرومی، ناانصافی اور دوری کا سبب بنتا ہے۔ چھوٹے صوبے بظاہر عوامی شمولیت اور نمائندگی کو بڑھا سکتے ہیں، لیکن خطرہ یہ بھی ہے کہ ان سے مزید لسانی اور علاقائی تقسیم جنم لے گی، جو ملک کی وحدت کو کمزور کر سکتی ہے۔
یوں یہ معاملہ ایک ایسا سماجی معمہ ہے جس کا کوئی آسان حل نہیں۔ زیادہ صوبے بنانا بظاہر ایک سیدھا سا حل لگتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی سماجی، سیاسی اور آئینی پیچیدگیاں جڑی ہیں۔ عوام کو یقین دہانی کے بغیر کہ نئی تقسیم ان کی زندگیوں میں واقعی بہتری لائے گی، اس بحث کو قبولیت حاصل ہونا مشکل ہے۔
پاکستان کے صوبائی معمہ پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مسئلہ محض نقشے کی تبدیلی یا نئے صوبوں کے قیام کا نہیں بلکہ ریاست اور عوام کے باہمی رشتے کا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ چار صوبے ہوں یا اڑتیس، بلکہ یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کس حد تک انصاف کرتی ہے، وسائل کو کیسے بانٹتی ہے اور عوام کی آواز کو کس حد تک سنتی ہے۔
اگر ریاستی ڈھانچے کو دیکھیں تو چار بڑے صوبے عوامی نمائندگی کو محدود بھی کرتے ہیں اور کئی خطوں میں محرومی کو جنم بھی دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ صوبے خود بخود ترقی کی ضمانت نہیں۔ اگر پرانے ڈھانچوں کے اندر موجود طاقتور طبقے ہی نئے صوبوں پر قابض ہو جائیں تو عوام کے حالات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ اصلاحات کس مقصد کے لیے کی جاتی ہیں اور ان کا فائدہ کس تک پہنچتا ہے۔
پاکستان کے عوام کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ حکومت ان کے قریب ہو، ان کے مسائل کو سمجھے اور ان پر عملی اقدامات کرے۔ یہ مقصد صرف نئے صوبے بنانے سے نہیں بلکہ مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام قائم کرنے سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں مقامی حکومتیں ہی ترقی اور عوامی سہولتوں کی اصل ضامن ہیں۔ اگر پاکستان اپنے شہروں اور قصبوں میں منتخب بلدیاتی ادارے قائم کر کے انہیں مالی اور انتظامی اختیار دے دے تو شاید زیادہ صوبے بنانے کی ضرورت ہی کم ہو جائے۔
سماجی اعتبار سے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کو یقین ہو کہ ان کے ساتھ کسی تعصب یا امتیاز کے بغیر برتاؤ ہوگا۔ اگر صوبوں کی تقسیم صرف سیاسی چال یا طاقت کے کھیل کے طور پر دیکھی جائے گی تو یہ بحث ہمیشہ متنازع اور غیرمقبول رہے گی۔ لیکن اگر اسے عوامی فلاح کے تناظر میں عملی طور پر آگے بڑھایا جائے، تو یہ پاکستان کی وحدت اور ترقی کے لیے مثبت قدم بن سکتا ہے۔
یوں پاکستان کا صوبائی معمہ دراصل ایک بڑے سوال کی علامت ہے: کیا ریاست اپنے عوام کے لیے طاقت اور وسائل کو انصاف کے ساتھ تقسیم کرنے کو تیار ہے؟ اگر ہاں، تو چاہے صوبے چار ہوں یا اڑتیس، عوام کو فرق محسوس ہوگا۔ اگر نہیں، تو چاہے نقشے کتنی بار بدلے جائیں، عوام کی محرومی اور بداعتمادی ختم نہیں ہوگی۔