افغانستان ایک بار پھر قدرتی آفت کا شکار ہوا ہے۔ اتوار کی رات دیر گئے مشرقی افغانستان کے پہاڑی علاقے میں آنے والے ایک شدید زلزلے نے سینکڑوں خاندانوں کو اجاڑ دیا۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 6.0 تھی اور اس کا مرکز جلال آباد کے قریب ننگرہار صوبے میں واقع تھا، جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ متصل ہے۔ زلزلہ رات تقریباً بارہ بجے آیا، جب بیشتر لوگ نیند کی حالت میں تھے، اور انہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ صرف چند لمحوں میں گھروں کی چھتیں گر گئیں، دیواریں ٹوٹ گئیں، اور زمین نے اپنے نیچے کئی زندگیوں کو دفن کر دیا۔
افغان طالبان حکومت کے مطابق اس زلزلے میں اب تک 800 سے زائد افراد جاں بحق اور کم از کم 1500 زخمی ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی ننگرہار، کنڑ اور قریبی پہاڑی علاقوں میں دیکھنے کو ملی ہے۔ کئی دیہات مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں تک رسائی انتہائی مشکل ہو گئی ہے کیونکہ زلزلے کے بعد لینڈ سلائیڈنگ نے سڑکیں بند کر دی ہیں، اور مواصلاتی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہی فون سروس، اور لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں بے سروسامانی کے عالم میں کھلے میدانوں میں پھرتے نظر آتے ہیں۔
طالبان حکومت نے فوری طور پر امدادی ٹیمیں اور فوجی ہیلی کاپٹرز متاثرہ علاقوں میں روانہ کیے ہیں، مگر دشوار گزار پہاڑی راستے، ملبے میں دبے افراد، اور جاری پس لرزے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ زخمیوں کو اسپتالوں تک پہنچانا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے کیونکہ بیشتر دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات پہلے ہی محدود ہیں۔ بہت سے افراد کو مقامی لوگوں نے درختوں کے نیچے یا ٹین کی چھتوں تلے ابتدائی طبی امداد دی ہے، مگر ان کی حالت نازک ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا کہ مقامی حکام اور عوام اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ نائب ترجمان حمداﷲ فترت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کو خوراک، لباس اور پناہ فراہم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سرکاری اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ "شہداء کی تدفین، زخمیوں کے علاج اور بے گھر افراد کی امداد کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔”
بین الاقوامی برادری نے بھی فوری ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندے پہلے ہی موقع پر موجود ہیں اور ہنگامی طبی امداد، خیمے، کمبل اور پینے کا صاف پانی متاثرین تک پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے متاثرہ خاندانوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی ٹیمیں ہر ممکن مدد فراہم کریں گی۔ افغان ریڈ کریسنٹ نے بتایا کہ زلزلے سے صرف انسانی جانی نقصان ہی نہیں بلکہ بڑی مالی تباہی بھی ہوئی ہے۔ بہت سے گھرانے اپنے چھوٹے کاروبار، مویشی اور جمع پونجی سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔
یہ سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب افغانستان پہلے ہی معاشی بحران، بین الاقوامی پابندیوں، اور انسانی امداد کی قلت جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ طالبان حکومت کو اب تک دنیا کے بیشتر ممالک نے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے غیر ملکی امداد اور وسائل کی فراہمی بھی محدود ہے۔ ایسے میں قدرتی آفات جیسے زلزلے کا آ جانا ان لوگوں کے لیے دوہرا عذاب بن جاتا ہے جو پہلے ہی بھوک، بیماری اور بے روزگاری جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
یہ امر مزید تکلیف دہ ہے کہ حالیہ سانحہ پچھلے سال اکتوبر میں افغانستان میں آنے والے زلزلے کے صرف چند ماہ بعد پیش آیا ہے۔ اکتوبر 2023 میں مغربی افغانستان میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1400 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ طالبان نے بعد میں مرنے والوں کی تعداد 4000 سے بھی زیادہ بتائی تھی۔ افغانستان کی تاریخ میں قدرتی آفات ہمیشہ بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنی ہیں، مگر ان سے نمٹنے کا کوئی مؤثر، مربوط اور دیرپا نظام اب تک قائم نہیں ہو سکا۔ ایمرجنسی سروسز کی کمی، تربیت یافتہ ریسکیو اہلکاروں کی قلت، اور صحت کے شعبے کی زبوں حالی اس ملک کو ہر قدرتی آفت میں بے بس بنا دیتی ہے۔
موجودہ زلزلے کے بعد اب تک کی اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیمے کم پڑ گئے ہیں، خوراک کا ذخیرہ ناکافی ہے، اور پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں میں۔ اسپتالوں میں بستر بھر چکے ہیں، اور عملہ دن رات مصروف ہے مگر طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی ڈاکٹروں نے اپنی ذاتی کوششوں سے کیمپ لگائے ہیں، مگر وہ بھی اس ہجوم کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔
ان حالات میں بین الاقوامی برادری کی فوری توجہ اور عملی تعاون ناگزیر ہے۔ صرف تعزیت یا بیانات کافی نہیں ہوں گے۔ اگر عالمی ادارے اور ممالک اس آفت کو انسانی ہمدردی کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو وہ افغانستان کے عوام کے لیے ایک بار پھر امید کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ افغان عوام دنیا سے صرف امداد نہیں بلکہ احترام اور ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر ہم، بطور انسان، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو ہماری ترقی، ٹیکنالوجی اور دعوے سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔
یہ وقت اختلافات اور سیاست کا نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کا ہے۔ افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے، اور یہ کام صرف حکومتوں، اداروں یا تنظیموں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہم میں سے ہر شخص، چاہے وہ ایک شہری ہو، استاد، طالبعلم، یا تاجر، اس میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ ایک کمبل، ایک خیمہ، ایک دوا کی شیشی یا صرف ایک دُعا بھی کسی کی زندگی بچا سکتی ہے۔ قدرتی آفات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ انسان کتنا ناتواں ہے، مگر یہی لمحے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ جب انسان ایک دوسرے کے لیے کھڑا ہو، تو وہ ہر بحران پر قابو پا سکتا ہے۔
اگر آپ اس واقعے سے متاثر ہو کر کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ مقامی یا بین الاقوامی ریلیف اداروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں، معلومات عام کر سکتے ہیں، یا دعاؤں میں ان متاثرین کو یاد رکھ سکتے ہیں۔ افغانستان آج جس آزمائش سے گزر رہا ہے، وہ صرف اس کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔