آفاقیات: .
پشاور سے رشید آفاق کی خصوصی تحریر: ۔
پورے خیبرپختونخوا اور خاص کر پشاور میں ٹک ٹاکروں، خواجہ سراؤں اور علیشا زیرو زیرو سیون نامی لوگوں، ان کے سہولت کاروں اور مستفید کاروں کے خلاف حالیہ پولیس ایکشن کو زبردست انداز میں سراہا جارہا ہے، جسے سراہا جانا بھی چاہئے ۔
یہ کون سے دہشت گرد ہیں جو مسلح ہو کر پولیس کے خلاف مزاحمت کریں یا پولیس بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ ان کے خلاف آپریشن کررہی ہے ۔ یہ لوگ تو ڈر کے مارے ایک ہی فون پر تھانے حاضر ہوتے ہیں، جس طرح علیشا کی ماں جو شکل سے ہی پولن دیوی لگتی ہے لیکن تھانے میں پولیس کے سامنے اور میڈیا کے سامنے بھیگی بلی کی طرح ایسی کھڑی تھی جیسے ابھی تہجد پڑھ کر آئی ہو،
ان سافٹ ٹارگٹیڈ لوگوں کے خلاف ایکشن لے کر پولیس بھی داد و تحسین وصول کرنے کے مسحورکن مراحل سے گزر رہی ہے ۔ افسران بالا بھی توصیفی سرٹیفکیٹس بانٹنے میں حاتم طائی کی قبر پر لاتیں مارتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ جنگی محلہ سے نئے نئے رنگین سرٹیفکیٹس چھپوانے کے لئے اپنے ماتحتوں کو بھیجتے نظر آتے ہیں،
ہم بھی پولیس کو داد دیتے ہیں، لیکن ساتھ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہمیں ذاتی طور پر ان ٹک ٹاکروں سے کیا خطرہ تھا یا ہے ۔ یا بالفاظ دیگر، ہمارے یا معاشرے کے لئے یہ ٹک ٹاکرز زیادہ خطرناک و خونخوار ہیں یا یہ سڑکوں پر چلتی پھرتی زومبیاں جو سنیچروں کی روپ میں دن رات فوجی انداز میں ڈیوٹیاں لگا رہے ہیں،
کوئی راہ چلتے موبائل یوز نہیں کرسکتا، کوئی گھر کے سامنے، مسجد میں، بھرے بازار میں، معروف و مصروف شاہراوں پر، گلی محلوں میں محفوظ تک نہیں ۔ مرد تو چھوڑیئے، عورتوں تک کو لوٹا جارہا ہے ۔ موبائل فون، عورتوں سے پرس تک چھینے جاتے ہیں،
سال پہلے جب مجھ سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی گئی، جب ملزم کو پولیس نے پکڑا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ صبح سے یہ میرا ساتواں حملہ تھا، چھ اور لوگوں سے موبائلز چھین چکا تھا اور میں کون سا شام کو گھر سے نکلا تھا۔ صبح دس بجے ریکارڈنگ کے لئے جارہا تھا کہ ملزم شریف آدھمکا، مطلب ملزم تہجد پڑھ کر اپنے دھندے پر نکلا تھا اور دس بجے تک چھ موبائل چھیننے کا دھندہ کر چکا تھا،
اوپر سے جب ایسے خونخوار بیڑیوں کو پولیس پکڑتی ہے تو اگلے دن عدالتوں میں بیٹھے معصوم جج صاحبان ان کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ثبوت نہیں ہیں ۔ اور ثبوت چھینے ہوئے موبائل اور متاثرہ شہری کی شکل میں جج صاحبان کے سامنے مظلومیت کی تصویر بنے کھڑے ہوتے ہیں، جیسے وہی اصل ملزم ہو،
میرے خیال میں پولیس کو ان فرعون نما اور سیکسی و پورن فلموں کے ہیروز ٹک ٹاکروں سے اپنی توجہ ذرا اس طرف مبذول کرنی چاہئے ۔ یہ تو ایسا ہے جیسے طالبان گاؤں کے بدمعاش، قاتل اور ظالم بدمعاش کو چھوڑ کر نائی کو پکڑ لیں کہ روز داڑھیاں کیوں منڈواتے ہو؟
ہمارے نئے سی سی پی او ڈاکٹر میاں سعید صاحب سے اہل شہر کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں،ایک تو موصوف خود بڑے ایماندار واقع ہوئے ہیں، ہر جگہ ایک عہد ساز اور مثالی وقت گزار کر آئے ہیں،پشاور میں پہلے بھی رہ چکے ہیں دوسرا ہمارے میڈیا کے چند دوست بھی کچھ زیادہ ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے ہیں، اس لئے بھی لوگ اب لمحوں میں پشاور کو ٹوکیو اور بیجنگ دیکھنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں،
اگرچہ یہ سالوں کا کِرتا دھرتا مسئلہ ہے، دنوں میں حل ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ دوسرا جو بہت ہی اہم شروعات نئے سی سی پی او صاحب نے کی ہے وہ بھی نہایت ہی قابل تحسین ہیں کہ پولیس افسران کی تعیناتی کے لئے کمیٹی بنائی ہے،یہ بہت اہم اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ورنہ ہم نے تو یہاں یہ تک سنا تھا کہ چند پولیس افسران تو ایس ایچ او صاحبان سے اپنے گھروں میں سولر سسٹم لگوانے کی ڈیمانڈ تک کیا کرتے تھے تاکہ کمائی سٹیشن پر براجمان ہوسکے،
کچھ ایسے ستم ظریفوں کو تو ہمارے چند میڈیا والوں نے بھی سفارش کرنے کے نام پر لوٹا تھا کہ صاحب سے سفارش کروا دوں گا ۔ اور چند صاحبان بھی (چائے)پینے اور پلانے میں ید طولی رکھتے تھے،ہر وقت آفس کو بہادر شاہ ظفر کا دربار بنارکھا تھا جہاں ایسے مشاعروں کااہتمام کیا جاتا جس میں ہر شعر میں عالم پناہ کو شیر ثابت کرناہوتا تھا اور ہر غزل کا مطلع سرجی سے شروع ہوکر مقطع بھی محترم کی کسی سابقہ نمائشی بہادری پر ختم ہوتاتھا،
بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو نان ایشوز سے نکل کر اب اصل ایشوز کی طرف آنا چاہئے ۔ اس بدبخت شہر پر روز نئے نئے عذاب نازل ہو رہے ہیں ۔ مونچھوں والی سرکار تو مونچھوں کو تاو دینے اور تمام ترقیاتی کام مختلف موبائل ایپس کا افتتاح کرکے سرانجام دے رہی ہے،
اب امید فقط پولیس، پولیس کی کارکردگی اور پولیس کی نئی کمان سے ہے ۔ اور اگر ان سنیچروں کا مکمل صفایا فرائی اور ہاف فرائی سے نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ سنیچر مستقبل قریب میں اتنے تگڑے ہو جائیں کہ شہریوں کو بھتہ خوروں کی طرح باقاعدہ کال کرکے کہیں گے کہ اگر جان کی امان چاہتے ہو تو اپنا موبائل فلاں جگہ پر لاؤ،
پچھلے دنوں ہمارے دوست اور سماء نیوز کے ہردلعزیز پیارے ذکاء بھائی سے بھی خیبر روڈ جیسے معروف سڑک پر موبائل چھینا گیا، جہاں ایک طرف کور کمانڈر ہاؤس اور دوسری طرف پولیس لائن ہے، جہاں درجنوں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہیں،
اگرچہ ہمارے ذکاء بھائی اتنے معصوم ہیں کہ اگر سنیچر پیار سے موبائل مانگتا تو ذکاء بھائی چائے کے ساتھ پکوڑے بھی کھلا کر اپنا موبائل نہایت عزت و احترام کے ساتھ دے دیتے،
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔