ناظمان خٹک کی تحریر: ۔
انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ظلم زیادہ دیر نہیں ٹکتا، لیکن ظلم سہنے والے دلوں پر جو زخم لگتے ہیں وہ صدیوں نہیں بھر پاتے، آج جب ایک بہن قربان ہوتی ہے تو صرف ایک فرد متاثر نہیں ہوتا بلکہ پوری نسل کا ضمیر زخمی ہوتا ہے، یہ وہ زخم ہے جسے کوئی دوا نہیں بھر سکتی ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں کی عزت کو خود اپنے ہاتھوں نیلام کر دیتے ہیں، جو بہنیں ہمارے لیے دعائیں مانگتی ہیں، جو راتوں کو جاگ کر ہمیں سہارا دیتی ہیں، انہی کو ہم دشمنی ختم کرنے کے لیے قربان کر دیتے ہیں، کیا یہ انصاف ہے کہ ماں کی ممتا کا سایہ دینے والی بیٹی کو ہم معاشرتی رسموں کی بھینٹ چڑھا دیں؟
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ یہ قربانیاں صرف ایک لمحے کے فیصلے پر ہو جاتی ہیں لیکن ان کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں، وہ بیٹی جو زبردستی دی جاتی ہے، اس کا سکون برباد ہوتا ہے، اس کی مسکراہٹ چھن جاتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل بھی دکھ بھری زندگی گزارتی ہے، یہ ظلم صرف آج کا نہیں بلکہ کل کا بھی قتل ہے ۔
اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو آنے والا وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا، تاریخ ہمیں بزدل، ظالم اور بے حس قوم کے طور پر یاد کرے گی، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی بہنوں کو قربان کرکے معاشرے کے مجرم بننا چاہتے ہیں یا ان کے محافظ بن کر ایک روشن مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، یہی سوال ہماری غیرت اور ایمان کا اصل امتحان ہے ۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کی دنیا میں اکثر علاقوں میں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا اور انسانوں کو پاؤں کے نیچے روندا جاتا ہے، جن میں ہماری بہنیں بھی شامل ہیں ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب میں نے کیسے کہا؟ دراصل یہ وہ باتیں نہیں جو میں نے کتابوں میں پڑھی ہوں، بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، ہمارے علاقے میں ایک شخص نے دوسرے پر اونٹ بیچے مگر اُس کے پاس پیسے نہ تھے، تو اس نے اپنی بیٹی دے دی، بیٹی خاموش رہی، کیونکہ اگر کچھ کہتی تو موت کا انتظار کرنا پڑتا، اور اگر خاموش نہ رہتی تو آج سخت عذاب میں مبتلا ہوتی ۔
اسی طرح بعض اوقات قتل کے بدلے لڑکی دے دی جاتی ہے تاکہ دشمنی دوستی میں بدل جائے، یہ کتنا افسوس ناک مقام ہے!
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم وہ بدنصیب ہیں جو اسی بہن کو قربان کر دیتے ہیں جس نے ہمیں جنم دیا، پالا اور ہماری پرورش کی، یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اپنی ہی نسل کشی کر رہے ہیں ۔
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ قانون نافذ ہونے کے باوجود ایسے ظالمانہ واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ یہی وہ سوال ہے جو میرے ذہن کو ہمیشہ بے چین رکھتا ہے اور مجھے جینے نہیں دیتا ۔