عدنان باچا کی خصوصی رپورٹ: ۔
خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں سیکورٹی فورسز کے ایک آپریشن کے دوران 17 شدت پسند مارے گئے، ان میں ایک شخص کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا ۔
کرک کے علاقے تھانہ شاہ سلیم درشہ خیل میں کارروائی کے دوران متعدد دہشت گرد ہلاک ہوئے، ہلاک شدگان میں ایک کی شناخت بنگلہ دیشی شہری کے طور پر ہوئی ہے ۔
ذرائع کے مطابق اس کے قبضے سے بنگلہ دیش کا شناختی کارڈ، کرنسی اور دیگر سامان برآمد ہوا ۔
دوسری جانب بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق کالی پور یونین کے گاؤں دودخیل کا رہائشی 21 سالہ فیصل حسین بھی اُن افراد میں شامل ہے جو جمعہ کی رات جھڑپ میں مارے گئے ۔
بنگلہ دیشی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے فیصل کے بڑے بھائی اَرمان حسین نے بتایا کہ فیصل گھر سے یہ کہہ کر نکلا تھا کہ وہ دبئی میں ایک حجامہ سینٹر میں ملازمت کے لیے جا رہا ہے ۔
خاندان نے آخری بار اُس سے عیدالاضحیٰ سے پہلے بات کی تھی، اُس کے بعد سے بار بار کوششوں کے باوجود ان کا اُس سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا، فیصل کے والد الیکٹریشن ہیں جبکہ بڑے بھائی اَرمان "دراذ” میں ڈلیوری مین کے طور پر کام کرتے ہیں ۔
پاکستانی سیکورٹی اداروں کے مطابق بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان میں کارروائیوں کے لیے بیرون ملک سے افراد لائے جاتے ہیں یا پھر ان دونوں ممالک سے کالعدم تنظیموں کو فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے ۔
کرک میں ہلاک ہونے والے بنگلہ دیشی نوجوان کی تصدیق بھی سیکورٹی ادارے کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی تین بنگلہ دیشی نوجوان مختلف کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جو کالعدم تنظیموں سے وابستہ تھے ۔
وہ مبینہ طور پر مذہبی سرگرمیوں کے لیے افغانستان گئے تھے لیکن شدت پسند گروہوں نے انہیں اپنے نیٹ ورک میں شامل کر لیا تھا ۔
چند ماہ قبل پاکستانی انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر بنگلہ دیشی حکام نے دو افراد کو گرفتار کیا تھا جو شدت پسند گروپوں کے لیے بھرتی میں ملوث تھے ۔
بنگلہ دیشی صحافی حسن المحمود کے مطابق اب تک چار بنگلہ دیشی نوجوان پاکستانی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک تین سالہ بچی بھی جاں بحق ہوئی ۔
یہ بچی اپنے والد کے ساتھ تھی جو کالعدم تنظیم کا رکن تھا اور 24 دسمبر 2024 کو پکتیکا کے علاقے میں جھڑپ کے دوران شدید زخمی ہوا ۔
بنگلہ دیشی نوجوان عموماً تبلیغی جماعت کی آڑ میں پاکستان، افغانستان یا ایران پہنچتے ہیں اور پھر کالعدم تنظیموں کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں ۔
صحافی حسن المحمود کے مطابق بنگلہ دیش میں بھی متعدد جہادی تنظیمیں موجود ہیں جو نوجوانوں کو تیار کرتی ہیں اور پھر انہیں جہاد کے نام پر افغانستان بھیج دیتی ہیں ۔
بنگلہ دیش میں "القاعدہ ان سب کانٹیننٹ (AQIS)” کے نام سے ایک تنظیم موجود ہے جو نوجوانوں کو جہاد کے نام پر استعمال کرتی ہے ۔
مقامی صحافیوں کے مطابق یہ تنظیمیں افغانستان اور پاکستان میں مقیم اپنے کارندوں کو باقاعدہ فنڈنگ فراہم کرتی ہیں، جس کے ثبوت حالیہ دنوں میں منظرِ عام پر بھی آ چکے ہیں ۔