پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے ہی مختلف دعوے اور الزامات گردش کرتے رہے ہیں، لیکن جب ایک اہم سیاسی شخصیت کسی حقیقت کا انکشاف کرتی ہے، تو وہ سچائی کے پردے کو ہلکا کر دیتی ہے۔ ایمل ولی خان کا حالیہ انکشاف کہ 2013 میں تحریک انصاف کی حکومت نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مدد سے حکومت بنائی، پاکستان کی سیاست میں ایک نیا ہلچل پیدا کر گیا ہے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے نہ صرف ٹی ٹی پی کو اقتدار میں لانے میں مدد کی بلکہ سرکاری وسائل سے ان دہشت گردوں کی فنڈنگ بھی کی۔ یہ انکشاف کسی بھی سیاسی جماعت کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک بڑا دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے، اور اس سے ایک سوال اٹھتا ہے: کیا پاکستان کی سیکیورٹی اور سیاست میں ایسے متنازع تعلقات کی حقیقت حقیقتاً سامنے آنا شروع ہو گئی ہے؟
مذکورہ انکشاف میں جو بات سب سے زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کو فتنہ الخوارج کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اور یہ عناصر تحریک انصاف کے سیاسی ونگ کی مانند کام کرتے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں، دوسری طرف کچھ سیاسی جماعتیں ان ہی دہشت گردوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ الزامات پاکستان کی سیاسی فضا کو ایک نئی سمت میں لے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ ان الزامات کا جواب دے سکے اور عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو کہ ان کے رابطے کسی دہشت گرد تنظیم سے نہیں ہیں۔ اس انکشاف کے بعد عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ چکی ہے، اور لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا سیاسی مفادات کی خاطر ایسے خطرناک تعلقات کو فروغ دیا گیا ہے۔
ایمل ولی خان کے اس انکشاف کے بعد، ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے گروہ کس طرح قوت پکڑ رہے ہیں، اور ان گروپوں کی مدد سے سیاسی مفادات کو آگے بڑھانا کہاں تک مناسب ہے؟ ان الزامات کی حقیقت کھوجنے کے لیے ایک شفاف تحقیقات ضروری ہے، تاکہ عوام کو سچائی کا پتا چل سکے اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔