وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کا اہم اجلاس ہوا ہے جس میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر آبی وسائل کے علاوہ متعلقہ وفاقی سیکرٹریز کی شرکت، صوبائی اراکین کابینہ، چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی ۔
اجلاس میں پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے بقایاجات، نئے این ایف سی ایوارڈ اور ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے متعلق معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔
متعلقہ صوبائی حکام کی جانب سے اجلاس کے شرکاء کو مذکورہ معاملات پر بریفنگ دی گئی ،وفاقی حکام کا ان معاملات پر صوبائی حکومت کے موقف سے اصولی اتفاق ہو گیا ۔
صوبائی حکام کے مطابق ان معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے وفاقی سطح پر کوششیں کرنے کی یقین دہانی، پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے 1900 ارب روپے کے بقایاجات ہیں ۔
اجلاس کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پن بجلی کے منافع کی ادائیگیوں کے عبوری طریقہ کار کے تحت بھی وفاق کے ذمے 77 ارب روپے واجب الادا ہیں ۔
صوبائی حکام کے مطابق ان ادائیگیوں کے طریقہ کار کے لئے اوٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد بلایا جائے،آوٹ آف دی باکس کمیٹی کی سفارشات کی حتمی فیصلے کے لئے جلد سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کی جائیں ۔
حکام کے مطابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا اس سلسلے میں وزیر اعظم کو مراسلہ بھی ارسال کرچکے ہیں، سابقہ قبائلی علاقوں کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام تو ہوگیا لیکن مالی انضمام ابھی تک نہیں ہوا ۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبے کی آبادی مجموعی ملکی آبادی کے 14.7 فیصد سے بڑھ کر 17.7 فیصد ہوگئی، آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا حصہ 14.2 فیصد سے بڑھ کر 19.46 بنتا ہے ۔
صوبائی حکام کا مزید کہنا تھا کہ اس حساب سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 350 ارب روپے ملنے ہیں، اس سلسلے وفاقی حکومت جلد سے جلد موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ بھی وفاقی حکومت کے ذمے ہیں، رواں مالی سال کے لئے ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ کا حجم 127 ارب روپے ہے، اس کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے صرف 66 ارب روپے مختص کئے ہیں ۔
حکام کے مطابق باقی خسارہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے پوری کر رہی ہے، وفاقی حکومت اس بجٹ کو بڑھانے کے لئے فوری اقدامات کرے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ضم اضلاع کے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی آبادی کاری کے لئے وفاق نے مزید 66 ارب روپے دینے ہیں، ضم اضلاع کے دس سالہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے لئے وفاق نے سالانہ 100 ارب فراہم کرنے تھے ۔
صوبائی حکومت کے مطابق اس مد میں وفاق نے اب تک 600 ارب روپے کے مقابلے صرف 122 ارب روپے فراہم کئے ہیں، وفاق کی طرف سے اے آئی پی پروگرام کے لئے کمیٹی کی تشکیل غیر قانونی اقدام ہے ۔
صوبائی حکومت کے اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت نے یقین دہائی کرائی کہ ضم اضلاع کے فنڈز کی فراہمی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے ۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ پن بجلی کے منافع، این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق ہمارے سارے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں،ہم نہ کوئی غیر قانونی مطالبہ کر رہے ہیں نہ ہی کچھ اضافی مانگ رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ان معاملات سے متعلق وفاقی حکومت آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرے، ضم اضلاع کے مخصوص حالات وفاق کے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں ۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں بد امنی کے خاتمے اور لوگوں کو اعتماد دینے کے لئے وہاں پر سماجی اور معاشی شعبوں میں تیز رفتار ترقی ضروری ہے، وزیراعلیٰ نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لئے وفاقی حکومت جلد اجلاس بلائے ۔