پشاور(خالد خان)باگرام ایئربیس ایک بار پھر عالمی سیاست اور سیکیورٹی ترجیحات کا مرکز بن چکا ہے اور اس بار اس کے پیچھے چھپے عزائم صرف افغانستان تک محدود نہیں دکھائی دے رہے۔ امریکہ میں طاقت کے ایوانوں میں ہونے والی سرگوشیوں اور کچھ مخصوص حلقوں کے اقدامات کو دیکھ کر یہ خدشہ تقویت پکڑ رہا ہے کہ اس بیس کو پاکستان کے جوہری اثاثوں کو غیر مؤثر بنانے کے ایک بڑے منصوبے کے تحت فعال کیا جا رہا ہے۔ واقعات کی ترتیب ایک ایسی تصویر پیش کر رہی ہے جو کسی منظم حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے۔ جب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ "ہمیں باگرام اس لیے واپس چاہیے کیونکہ ہمیں پڑوسی خطرات پر نظر رکھنی ہے،” تو سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون سا پڑوسی ہے جو ایٹمی طاقت رکھتا ہے؟ جواب واضح ہے۔۔۔پاکستان۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ امریکی پالیسی سازوں کے بیانات اور اقدامات پاکستان کے جوہری اثاثوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ مائیک والٹز، جو قومی سلامتی کے امور پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور سابق گرین بیریٹ کمانڈو بھی رہ چکے ہیں، افغانستان میں امریکی موجودگی کو طالبان کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹیجک بیس کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے حالیہ بیانات میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور ان پر نگرانی رکھنا ضروری ہے۔ مائیک پومپیو، جو ماضی میں سی آئی اے کے سربراہ اور امریکی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، بظاہر منظر سے غائب ہیں، مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ میں ان کا اثر آج بھی برقرار ہے۔ وہ کھلے عام یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے جوہری اثاثے بین الاقوامی کنٹرول میں ہونے چاہئیں۔
یہی نہیں، پیٹ ہیگستھ، جو امریکی وزیر دفاع ہیں، نے بگرام میں امریکی فوجی سرگرمیوں کو دوبارہ تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر اس اقدام کو داعش کے خلاف کارروائی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر داخلی اطلاعات کچھ اور کہانی بیان کرتی ہیں۔ یہ سب ایسے اشارے ہیں جو کسی بڑے منصوبے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی گواہی دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان ہی کیوں نشانے پر ہے؟ اس کا جواب کئی عوامل میں پوشیدہ ہے۔
پاکستان کے پاس 170 سے زائد ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور مغربی دنیا اسے ایک غیر متوقع جوہری طاقت تصور کرتی ہے، جس پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں۔ اس تناظر میں، گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اچانک اضافہ بھی ایک خاص حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اور تحریک طالبان پاکستان کے حملے کیوں بڑھ گئے ہیں؟ کیا یہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش ہے تاکہ بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان ایک غیر مستحکم ریاست ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کو عالمی کنٹرول میں لیا جانا چاہیے؟ باگرام ایئربیس کی لوکیشن بھی ایک فیصلہ کن عنصر ہے۔ یہ پاکستان کی سرحد کے قریب ہے، جہاں سے کسی بھی فوجی کارروائی کو برق رفتاری سے انجام دیا جا سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی کئی مواقع پر مختلف حربے استعمال کیے گئے تاکہ پاکستان کو ایک غیر محفوظ جوہری ریاست کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نیا نہیں، بلکہ لیبیا کے ماڈل کی ایک جھلک دکھائی دیتا ہے، جہاں پہلے ملک میں بدامنی اور انتشار کو ہوا دی گئی، پھر عالمی میڈیا میں یہ بیانیہ پھیلایا گیا کہ لیبیا کے ہتھیار عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں، اور بالآخر بین الاقوامی مداخلت کے ذریعے اس ملک کو مکمل طور پر غیر مستحکم کر دیا گیا۔ یہی ماڈل آج پاکستان پر آزمایا جا رہا ہے۔
اگر آنے والے مہینوں میں پاکستان میں دہشت گرد حملے مزید بڑھ جاتے ہیں، اچانک عالمی میڈیا میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کی خبریں پھیلنے لگتی ہیں، یا کسی قسم کا "جوہری سیکیورٹی لیک” سامنے آتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب ایک بڑی مہم کا حصہ ہے، اور باگرام ایئربیس کو کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے فعال کیا جا سکتا ہے۔
یہ سب ایک منظم کھیل دکھائی دیتا ہے جس میں کئی اہم کردار شامل ہیں۔ والٹز وہ شخص ہے جو اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سفارتی اور فوجی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔ ہیگستھ وہ شخصیت ہے جو امریکی فوجی طاقت کے عملی مظاہرے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ پومپیو وہ دماغ ہے جس نے مسلم دنیا میں جوہری طاقت کے مکمل خاتمے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس ممکنہ چال کے خلاف کیا حکمت عملی اپناتا ہے؟ وقت کم ہے، اور اگر پاکستان میں مزید عدم استحکام پیدا کیا جاتا ہے، تو یہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف کسی بھی ممکنہ اقدام کے لیے ایک جواز پیدا کر سکتا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے، اور پاکستانی ریاست اور عوام کو اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔