همارے ہاں برصغیر میں عموماً اور پختونخوا میں خصوصاً روایات اور اقدار کی پاسداری کی جاتی تھی ۔ برصغیر میں پشتون اوصافِ حمیدہ پر مذہب کی طرح ایمان رکھتے تھے ۔ پشتونولی انہی روایات کا تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی مجموعہ ہے جس پر عمل نہ کرنا گویا گالی کے مترادف ہوتا ہے ۔ پشتونولی اعلیٰ انسانی اقدار، روایات، حساسیت اور اجتماعی شعور کا وہ اعلیٰ اخلاقی اصول ہے کہ جس سے روگردانی پشتون سماج سے بے دخلی کا تازیانہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی سہواً یا ارادۃً کوئی ایسا عمل کرے جو "پشتونولی” کے دائرے سے باہر ہو تو فوراً کہا جاتا ہے کہ تم نے پشتون سماج کے زرّین اصولوں کو توڑا ہے اور تم پشتون نہیں رہے ہو ۔
پشتون جو تاریخی، عمرانی اور بشریاتی علوم کے مطابق "خانہ بدوش” تھے، کبھی زراعت، صنعت و حرفت اور تجارت کو رسمی شکل نہیں دے سکے ۔ پشتونوں نے کبھی سائنس، ٹیکنالوجی، طب اور جدید علوم میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا ہے ۔ حتیٰ کہ پشتون سوئی دھاگے کے لیے بھی چین کے مرہونِ منت رہے تھے ۔ جدید علوم، فنون، سائنس، ٹیکنالوجی، ادبیات اور ایجادات کے حوالے سے ہم ہمیشہ تہی دامن رہے ہیں ۔
جدیدیت کے حوالے سے ہمارے پاس معتبر ہونے کا کوئی حوالہ نہیں ہے ۔ بہت سارے پشتون قوم پرست پشتونوں کو بہادری، جرات، غیرت اور جنگجو ہونے کے خطابات سے نوازتے ہوئے انہیں اقوامِ عالم میں منفرد اور مختلف قوم ٹھہراتے ہیں ۔ اوّل تو جنگ و جدل اور قتال باعزت اور معتبر ہونے کا کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور اگر اسے معیار تسلیم بھی کیا جائے تو پھر بھی چنگیز خان، منگولوں اور ترکوں کے سامنے پشتونوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ پشتونوں کو بے وقوف بنانے اور اپنے گھناؤنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف اوقات میں مختلف طاقتوں اور حلقوں نے غیرت کے بانس پر چڑھاتے ہوئے استعمال کیا ہے ۔ آج کی بدامنی، قتال، دہشت گردی اور پشتونوں کی دربدری اسی جھوٹی غیرت کی وجوہات ہیں ۔ پشتون غیرت مند ہوں یا نہ ہوں، ایک جذباتی قوم ضرور ہے ۔
غیرت ایک مسلسل عمل اور محنت کا نام ہے جو قومیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوتی ہے ۔ جہالت، غربت، افلاس، امراض، عدمِ اتفاق، امن، ترقی، خوشحالی اور علم کے حصول کی مسلسل جدوجہد غیرت کہلاتی ہے ۔ غیرت کا یہ معیار جاپان، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنی اقوام کی حالت بدل کر دکھائی ہے ۔ پشتون جسے غیرت کہتے ہیں وہ چند ثانیوں کی جذباتیت ہوتی ہے ۔ لمحوں میں کسی کو گالی دینا، کسی کو قتل کرنا اور خود ساختہ اعمال و افعال کو پشتونولی کا نام دے کر قومی جرم کا ارتکاب ہے، نہ کہ غیرت ۔ مگر ان حقائق کے باوجود بھی پشتون اقوامِ عالم میں معتبر اور مقبول انسانی نسل ہے ۔ اس کی وجوہات جغرافیہ کے علاوہ تاریخی بھی ہیں ۔
پشتونوں کے پاس جب کچھ بھی نہیں تھا تب بھی ان کے پاس پشتونولی کا انمول خزانہ تھا ۔ اعلیٰ و ارفع انسانی اخلاقی اور معاشرتی اقدار جو بدقسمتی سے آج ہمارے پاس نہیں رہے ہیں ۔ پشتونوں کے گوناگوں مسائل سیاسی اور معاشی سے زیادہ اخلاقی ہیں ۔ پشتون قوم پرست جماعتوں اور ان تمام سیاسی قائدین کو جو پشتونوں کی بہتری چاہتے ہیں، ان کو اپنے کام کا آغاز وہاں سے کرنا ہوگا جہاں سے خان عبدالغفار خان باچا خان نے ترک کیا تھا ۔ مسلمانوں کی طرز پر پشتونوں کی بھی نشاۃِ ثانیہ کی احیا کی ضرورت ہے ۔ باچا خان نے پشتونوں کی اصلاح کے لیے فلاحی اور رفاہی تحریک شروع کی تھی ۔ اگر وہ انجمن اصلاح افاغنہ تھی اور اگر وہ خدائی خدمتگار تحریک تھی، ان کے اصل اہداف پشتونوں کی اصلاح اور نشاۃِ ثانیہ تھی ۔
ہنگامی بنیادوں پر پشتونوں کی اصلاح، تربیت اور اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے ۔ پشتونوں کے درمیان دشمنیوں اور قبائلی تنازعوں کی دوستی میں بدلنے کی ضرورت ہے ۔ پشتونوں میں بھائی چارے اور اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے ۔ پشتونوں کو اس پر مجبور کرنا ہے کہ تمام اعمالِ بد کو ترک کرتے ہوئے اسلام اور پشتونولی کے آغوش میں آ جائیں ۔ دولت کے حصول اور نو دولتیوں کو بزرگ و بہتر اور راہنما بنانے کے رَوَش کو ترک کر دے ۔
پشتون سماج میں عزت کا معیار اخلاق، کردار اور قومی خدمت کے جذبات کو مقرر کرے ۔ پشتونوں کو ناجائز طریقے سے دولت مند بننے والوں کا تب تک سماجی بائیکاٹ کرنا ہوگا جب تک وہ اعمالِ بد سے توبہ استغفار کرکے پشتون قوم کی صف میں شامل نہیں ہوتے ۔ پشتونوں میں وہی عظیم ہوگا جو ذہین، باکردار اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوگا ۔ پشتونوں میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے ۔ سب برابر ہیں ۔ کسب پیشہ ہے، ذات اور قومیت نہیں ہے ۔ ہمیں باچا خان کے رستے پر چل کر کسب گروں کو اپنا بھائی بنانا ہوگا ۔ ورنہ ایک طرف دہشت گردوں کے ہاتھوں مرتے رہیں گے اور دوسری جانب ریاست، سیاست اور سیادت کے ظلم و جبر کے شکار ہوتے رہیں گے ۔ اور اس دوران، قصائی فضل حکیم کی طرح نو دولتیے اور پشتون قوم کے لٹیرے والیِ سوات کا آشیانہ اور پشتونوں کا ورثہ لیتے رہیں گے اور وہ دن دور نہیں کہ پشتون ساری دنیا کی خوشیوں میں ناچنے کے لیے محض "اتنڑ” رقص کے ماہر لوگ نہ رہ جائیں ۔