Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    جمعرات, اگست 28, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • خیبر پختونخوا کا سونا، کس کا خزانہ؟. تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین
    • افغانستان نے ننگرہار اور خوست میں ڈرون حملوں پر پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا
    • ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان خونریز تصادم
    • صوابی میں سیلاب متاثرین کیلئے خودمختار ساوی کی بروقت امداد
    • موسمیاتی تبدیلیاں بڑا چیلنج ہیں، نئے ڈیمز فوری بنانا ہوں گے، وزیراعظم شہبازشریف
    • پنجاب میں سیلاب سے تباہی، کئی بند ٹوٹ گئے، دریائے راوی میں خطرناک حد تک اضافہ، 15 جاں بحق، متعدد لاپتہ
    • سندھ اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں بھی کئی لاکھ روپے اضافے کی منظوری
    • صدر مملکت کا سیلاب میں مالی و جانی نقصانات پر اظہار افسوس، پاک فوج کو شاندار خراج تحسین
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » خیبر پختونخوا کا سونا، کس کا خزانہ؟. تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین
    اہم خبریں

    خیبر پختونخوا کا سونا، کس کا خزانہ؟. تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین

    اگست 28, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔7 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Share
    Facebook Twitter Email

    خیبر پختونخوا پاکستان کا وہ خطہ ہے جسے قدرت نے زیر زمین معدنی دولت سے بے پناہ نوازا ہے۔ یہاں کی سرزمین نہ صرف قدرتی خوبصورتی سے آراستہ ہے بلکہ قیمتی دھاتوں، پتھروں اور معدنیات کی صورت میں ایسے ذخائر رکھتی ہے جو ملکی معیشت کی سمت بدل سکتے ہیں۔ ان قدرتی خزانوں میں سے ایک انتہائی اہم اور حالیہ دنوں میں متنازعہ بن جانے والا وسیلہ پلیسر گولڈ ہے، جو دریائے سندھ اور دریائے کابل کے کناروں سے نکالا جاتا ہے۔ لیکن جس طرح یہ قیمتی خزانہ زمین سے نکالا جا رہا ہے، اس نے یہ بنیادی سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا یہ دولت واقعی عوام کی ملکیت ہے، یا مخصوص مفادات کی تکمیل کا ذریعہ؟

    سال 2023 میں خیبر پختونخوا حکومت نے سونے کے بلاکس کی نیلامی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ ماضی کی غیر قانونی کان کنی کو روک کر ریاستی نظام کے تحت ایک شفاف، قانونی، اور منافع بخش عمل کو ممکن بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس نیلامی کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا، ان کا مؤقف تھا کہ بیس سال بعد پہلی بار حکومت نے یہ معاملہ قانونی دائرے میں لا کر شفاف انداز میں آگے بڑھایا۔ ان کے مطابق ماضی میں نیلامی کی جو قیمت تھی، ان کی حکومت نے اس سے کہیں بہتر نرخ حاصل کیے، کیونکہ ماضی میں ایک بلاک 65 کروڑ میں نیلام ہوتا تھا جبکہ اب کم از کم قیمت 1.10 ارب روپے مقرر کی گئی اور چار بلاکس 4.6 ارب روپے میں فروخت ہوئے۔

    تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان نیلامیوں کے خلاف ایک مفصل رپورٹ جاری کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ پورا عمل غیر شفاف، مشکوک اور مخصوص مفادات سے جڑا ہوا تھا۔ نیب کے مطابق نہ صرف نیلامی کی کم از کم قیمت غیر حقیقی طور پر کم رکھی گئی بلکہ اس عمل میں سابقہ سائنسی تحقیق کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ سنہ 2015 میں نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس ان جیالوجی، پشاور یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ان بلاکس میں سونا 0.21 سے 44.15 گرام فی ٹن کے حساب سے موجود تھا، لیکن اس تحقیق کو نظر انداز کر کے ایسا تاثر دیا گیا جیسے ان بلاکس کی قدر اس سے کہیں کم ہو۔

    یہی نہیں، نیب نے اس امر پر بھی سوال اٹھایا کہ نیلامی کے بعد قانونی تقاضے، جیسے 14 دن کے اندر معاہدہ مکمل کرنا، کیوں نظر انداز ہوئے؟ اگر نیلامی قواعد کے مطابق 14 دن میں معاہدہ نہ ہو تو نیلامی ازخود منسوخ سمجھی جاتی ہے، مگر یہاں کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی معاہدے طے کیے گئے اور کمپنیوں کو کام جاری رکھنے دیا گیا۔ یہ غیر معمولی رعایت شفاف عمل کے برعکس ایک غیر متوازن نظام کو ظاہر کرتی ہے، جہاں قانون کی عملداری کسی خاص سمت مڑ جاتی ہے۔

    اس سے بھی زیادہ تشویشناک پہلو نیب کی طرف سے ظاہر کردہ مالی تخمینے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ان بلاکس پر کام کرنے والی کمپنیاں ہر ہفتہ فی ایکسکیویٹر مشین 5 سے 7 لاکھ روپے کا کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ جب کہ علاقے میں تقریباً 1500 مشینیں کام کر رہی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کی ہفتہ وار آمدنی 750 کروڑ سے 1.05 ارب روپے کے درمیان بنتی ہے۔ سالانہ بنیاد پر یہ رقم کھربوں روپے میں تبدیل ہو جاتی ہے، جب کہ حکومت کو ان بلاکس سے محض چند ارب روپے کا ریونیو مل رہا ہے، وہ بھی پورے دس سال کی مدت کے لیے۔ اس تفاوت سے واضح ہوتا ہے کہ عوامی وسائل کا حقیقی فائدہ ریاست کو نہیں بلکہ نجی کمپنیوں کو ہو رہا ہے، اور یہ معاملہ معاشی انصاف، مالی شفافیت اور حکومتی نظم و نسق کی بنیادی روح سے متصادم ہے۔

    یہ صرف مالیاتی معاملہ نہیں بلکہ ایک قانونی اور اخلاقی بحران بھی ہے۔ نیب کے مطابق نومبر 2024 میں پشاور ہائی کورٹ نے ان بلاکس پر جاری کان کنی کے خلاف اسٹے آرڈر جاری کیا، جس کے باوجود متعلقہ کمپنیوں نے اپنا کام بند نہ کیا۔ یہ عدالتی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے، جو نہ صرف قانون کی عملداری پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ طاقتور عناصر عدالتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اگر ایسے نظائر قائم ہونے لگیں تو یہ رجحان ریاستی کمزوری اور ادارہ جاتی زوال کی علامت بن جائے گا۔

    نیب کی رپورٹ میں ماحولیاتی تحفظ کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، کان کنی میں شامل کمپنیوں نے ماحولیاتی اثرات کی جانچ (EIA) نہیں کروائی، نہ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی سے اجازت لی، اور نہ ہی ماحولیاتی ضوابط کے مطابق سونے کی پراسیسنگ کے لیے مطلوبہ آلات نصب کیے۔ اس کے علاوہ دریاؤں کے پانی کو زہریلے کیمیکلز سے آلودہ کیا جا رہا ہے، خاص طور پر مرکری (پارا) جیسا خطرناک مادہ استعمال کیا جا رہا ہے، جو انسانی صحت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ مقامی آبادی کے لیے پینے کا پانی، زراعت، اور ماہی گیری سب اس آلودگی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

    انسانی حقوق کی پامالی بھی اس پورے عمل میں نظر آتی ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ کان کنی کے ان منصوبوں میں غیر تربیت یافتہ مزدوروں کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی کام لیا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستانی قوانین بلکہ بین الاقوامی لیبر معاہدوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے، جن کی خلاف ورزی پر ریاست کو اخلاقی اور قانونی سطح پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

    ان تمام تنقیدوں کے باوجود، حکومت اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ نیب کو وقت پر مطلع کیا گیا، اس کا نمائندہ نیلامی کے عمل کا حصہ تھا، اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ وہ اس ساری رپورٹ کو ایک غیر ضروری مداخلت قرار دیتے ہیں اور اسے ترقی کے عمل میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے غیر قانونی کان کنی کو قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے، جو حکومت کی کامیابی ہے۔
    تاہم نیب کی رپورٹ اس مؤقف کو پوری طرح چیلنج کرتی ہے اور اس عمل میں بد نیتی، ادارہ جاتی ناکامی، اور مخصوص مفادات کی بالادستی کو اجاگر کرتی ہے۔ ایک اور قابلِ غور پہلو بین الاقوامی سرمایہ کاری کی مکمل غیر موجودگی ہے۔ ایسی نیلامی جس میں بین الاقوامی کمپنیاں دلچسپی نہ لیں، شفافیت اور عالمی اعتماد پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اس وقت آتے ہیں جب قانون کی عملداری، اداروں کی خودمختاری، اور فیصلہ سازی کا عمل شفاف ہو — یہ تمام پہلو اس کیس میں غیر واضح نظر آتے ہیں۔

    یہ صرف ایک نیلامی کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان میں پبلک ریسورس مینجمنٹ کی ناکامی کا عکس ہے۔ اگر قدرتی وسائل کا انتظام مخصوص طبقات یا افراد کے مفاد میں ہو، تو ایسی معیشت عوام کی فلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اس کا نتیجہ عوامی اعتماد کا ٹوٹنا، ریاستی اداروں کی کمزوری، اور معاشی ناہمواری کی شکل میں نکلتا ہے۔
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پورے معاملے کی غیر جانبدار عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ، ماحولیاتی تشخیص، اور انسانی حقوق کے تحفظ کو ہر مائننگ پراجیکٹ کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ پبلک ریوینیو ماڈلز پر نظر ثانی کی جائے تاکہ قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والا فائدہ براہ راست صوبے اور عوام کو پہنچے۔ عوامی مشاورت کو پالیسی سازی کا مستقل جزو بنایا جائے تاکہ عوامی وسائل کے فیصلے عوام کی مرضی سے ہوں، نہ کہ صرف بااثر طبقات کی سہولت کے لیے۔

    یہ وقت خاموشی کا نہیں، سوال اٹھانے کا ہے۔ خیبر پختونخوا کا سونا صرف زمین میں دفن کوئی دھات نہیں، بلکہ یہ ریاست کی شفافیت، عدالتی خودمختاری، اور معاشی انصاف کی آزمائش ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ خزانہ کہاں گیا، بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ واپس کیسے آئے گا، اور کن اصولوں پر عوام کے حق میں استعمال ہوگا۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleافغانستان نے ننگرہار اور خوست میں ڈرون حملوں پر پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا
    Web Desk

    Related Posts

    افغانستان نے ننگرہار اور خوست میں ڈرون حملوں پر پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا

    اگست 28, 2025

    ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان خونریز تصادم

    اگست 28, 2025

    صوابی میں سیلاب متاثرین کیلئے خودمختار ساوی کی بروقت امداد

    اگست 28, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    خیبر پختونخوا کا سونا، کس کا خزانہ؟. تحریر: ڈاکٹر حمیرا عنبرین

    اگست 28, 2025

    افغانستان نے ننگرہار اور خوست میں ڈرون حملوں پر پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا

    اگست 28, 2025

    ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان خونریز تصادم

    اگست 28, 2025

    صوابی میں سیلاب متاثرین کیلئے خودمختار ساوی کی بروقت امداد

    اگست 28, 2025

    موسمیاتی تبدیلیاں بڑا چیلنج ہیں، نئے ڈیمز فوری بنانا ہوں گے، وزیراعظم شہبازشریف

    اگست 28, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.