غربت دراصل تمام بیماریوں کی ماں ہے ۔ غربت جہالت کو جنم دیتی ہے ۔ غربت اچھی غذا اور صحت مند پرورش اور ماحول سے محروم کرتی ہے ۔ غربت زیادہ جفاکشی کا موجب بنتی ہے ۔ دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی، خلیاتی طور پر تبدیل شدہ اجناس، پھل اور سبزیاں اور غیر صحت مند غذا بیماریوں کو دعوت دیتی ہیں ۔ غیر صحت مند بود و باش، غیر فطری عادات و اطوار اور طرزِ زندگی ذہنی، روحانی اور جسمانی امراض میں اضافہ کا موجب بن رہے ہیں ۔
پاکستان جیسے ملک میں, جہاں اول تو قوانین نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو ان پر نہ عوام، نہ ہی کاروباری طبقہ اور نہ ہی متعلقہ حکومتی محکمے عمل کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں انواع و اقسام کے جراثیم اور بیماریوں کے پلنے پھولنے کے بہترین مواقع اور ماحول موجود ہیں ۔ ہمارے ہاں وہ امراض بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جن کا ابھی دنیا میں وجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی طب کی کتابوں میں کوئی ذکر ہے ۔ ہمارے ہاں ہر کوئی ڈاکٹر بھی ہے اور زیادہ تر لوگ خود اپنے امراض کی تشخیص اور علاج کرتے ہیں ۔ یہ علاج معالجہ اگر ذات تک محدود ہوتا تو تب بھی کوئی بات ہوتی، لیکن ایسے ماہرین پورے معاشرے کے غم خوار ہوتے ہیں ۔ اللہ بھلا کرے ادویہ کے دکانوں کا، جو ہر گلی اور ہر نکڑ پر بغیر لائسنس اور بغیر فارماسسٹ کے کاروبار کرتے ہیں ۔ ان دکانوں سے آپ کوئی بھی زہر بآسانی خرید سکتے ہیں ۔ اکثر ناخواندہ مریض گولیوں کے پلتوں کے رنگوں کا نام لے کر، جیسے کہ سرخ پلتے والی، نیلی پلتے والی دوا کہہ کر لے جاتے ہیں ۔
وطنِ عزیز میں ہزاروں کی تعداد میں دوا ساز کارخانے کھلے ہوئے ہیں جو بغیر کسی روک ٹوک کے زہر بنا کر بیچتے ہیں ۔ میڈیکل ریپس کی صورت میں باقاعدہ طبی دلال بھرتی کیے ہوئے ہیں جو تھائی لینڈ اور عمرے کے ٹورز ڈاکٹرز کو کراتے ہیں ۔ سرکاری اور نجی علاج معالجے کے مراکز بھی خالصتاً تجارتی اداروں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ اس ملک میں جتنا جینا مشکل ہے اس سے دوگنا مرنا سخت عذاب ہے ۔ جہاں موت بھی خریدنی پڑتی ہے وہاں بیماری کی صورت میں تندرستی کا حصول گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔
جوں جوں علاج مہنگا ہوتا رہا توں توں روایتی حکمت یا بالفاظِ دیگر طبِ یونانی اور طبِ اسلامی نے بھی اپنے انداز بدلے ۔ خاندانی حکیموں کی جگہ گلیوں میں واقع طبِ یونانی کے کالجوں سے برائے نام حکما بھی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہوتے رہے ۔ خود ساختہ معالجین، سلو تری اور خاندانی ڈاکٹرز اس کے علاوہ ہیں ۔ دور دراز کے دیہات میں تو زیادہ تر معالج انسانوں کے ساتھ ساتھ ڈور ڈنگر کا علاج معالجہ بھی کرتے ہیں ۔ اس گرم تندور میں روٹیاں لگانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ہومیوپیتھک معالجین بھی کود پڑے ہیں ۔ ہومیوپیتھک وہ طریقہ علاج ہے کہ مہذب دنیا اور طب کے علوم میں اس طریقہ علاج کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہے ۔ جرمنی اور ڈاکٹر شوابے کا نام محض ڈھکوسلہ ہے ۔ اس طریقہ علاج کے بارے میں بڑے سائنسی انداز میں یہ بات مشہور کی گئی ہے کہ اس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا ۔ سستا تو یہ ہے ہی، لہٰذا غربت اور بیماریوں کے مارے ہوئے لوگ ان ہومیوپیتھک ڈاکٹروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ ہومیوپیتھک معالجین سو فیصد سٹیرائیڈ اور مہلک کیمیکلز دیتے ہیں جس سے مریض کو فوراً اور سستا افاقہ ہوجاتا ہے اور اس کا ایمان ہومیوپیتھک طریقہ علاج پر اور زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل ہوجاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر مریض کی زندگی برباد ہوجاتی ہے اور کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔ زیادہ تر ہومیوپیتھک ڈاکٹر خود نیلی، پیلی اور میٹھی گولیاں بناتے ہیں جو سٹیرائیڈ اور کیمیکلز کا مرکب ہوتی ہیں ۔
ہومیوپیتھک مافیا نے پاکستان میں انتہائی خطرناک شکل اور صورتحال اختیار کی ہوئی ہے ۔ مستند قومی میڈیا پر ان کے پروگرامز اور اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے جو روزانہ ان کے گاہکوں میں ہزاروں لوگوں کا اضافہ کرتے ہیں ۔ نہ ہی تو میڈیا مالکان کا کوئی ضابطۂ اخلاق ہے اور نہ ہی حکومت نے کوئی مقرر کیا ہے، لہٰذا کاروبار دھڑلے سے چل رہا ہے ۔ نشر و اشاعت اور پبلسٹی کے دیگر تمام ذرائع بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اب تو ملک بھر میں ہومیوپیتھک ڈاکٹروں نے اپنے ایف ایم ریڈیوز کھول دیے ہیں جن کے ذریعے شب و روز عوام الناس کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔ قومی نشریاتی ادارے اشتہارات اور پروگرامز سے ملنے والی آمدن کی وجہ سے خاموش ہیں جبکہ بہت سے صحافی ان ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے نشریاتی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں ۔ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا منہ بھی ان لوگوں نے پیسے دے کر بند کیا ہوا ہے۔
حکومت اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی کہ سرکاری خزانے میں سب سے زیادہ ٹیکس یہی ہومیوپیتھک معالجین جمع کر رہے ہیں ۔ نیز سرکاری ٹیکس کے برابر متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کی جیبوں میں جا رہا ہے ۔ ہمارے وکلاء میں بھی احساسِ ذمہ داری کی کمی ہے کہ ان کے خلاف عدالت سے رجوع کریں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سوسائٹی ان کے خلاف مؤثر آواز اٹھائے اور ہومیوپیتھک طرزِ علاج کو اس طریقہ علاج تک محدود کرے جو اس کا اصل ہے ۔ سٹیرائیڈ اور کیمیکلز کے استعمال پر ہنگامی طور پر پابندی لگا کر انسانیت کو بچائیں، ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ ملک کی بیشتر آبادی ناقابلِ علاج امراض میں مبتلا ہوجائے گی ۔