اسلام آباد (ارشداقبال) قومی اسمبلی کے اجلاس میں گزشتہ روز یعنی منگل کو وزیراعظم شریف کی آمد پر پی ٹی آئی اراکین نے سخت احتجاج کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قومی اسمبلی آمد کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف ارکان کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور آوازیں لگانا شروع کردیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بھی جوابی نعرے بازی کی تاہم شہباز شریف ایوان سے خطاب کیے بغیر واپس روانہ ہوگئے۔یہ احتجاج مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہا ، تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب تحریک انصاف کے سنجیدہ رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں ،اگر یہ بھی ایوان میں ایسا احتجاج کریں گے جس کی وجہ سے وزیراعظم خطاب نہیں کر سکیں گے تو یہ اچھا تاثر بالکل بھی نہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایسے احتجاج کبھی نہیں ہوئے جیسے پی ٹی آئی رہنما کر رہے ہیں ۔ان کے احتجاج کی وجہ سے قومی اسمبلی میں اہم قانون سازی بھی نہیں ہو پاتی اور پی ٹی آئی کو اس کا ادراک ہی نہیں ۔
احتجاج ضرور کیا جائے لیکن قومی اسمبلی جیسے اہم ایوان کی کارکردگی ہرگز احتجاج سے متاثر نہیں ہونی چاہیے، ایسا اگر پی ٹی آئی کے دور میں ہوا تو بھی غلط ہوا اور اگر ابھی ہورہا ہے تو بھی غلط ہے ۔ پی ٹی آئی رہنما بغیر کسی وجہ احتجاج اور ہلڑ بازی شروع کرتے ہیں اور پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں ۔ اگر تحریک انصاف واقعی ایک سیاسی جماعت ہے تو ان کو خود کو سیاسی جماعت ثابت کرنا ہوگا ، ان کو سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔
پی ٹی آئی ہی کی وجہ سے ملک کے دیگر اہم معاملات میں بھی پیشرفت نہیں ہو رہی ، جیسے اگر عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تو پی ٹی آئی کی جانب سے فوری اپیلیں دائر کی جاتی ہیں ، بے شک ان کو اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس کا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے ، کوئی عدالت اگر سزا دیتی ہے تو بات سمجھ آجاتی ہے ، آپ اپیل میں چلے جائیں، لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ اگر وفاقی حکومت نے کوئی فیصلہ کرلیا تو اس پر بھی نہ صرف یہ احتجاج کرتے ہیں بلکہ اس کو عدالتوں میں بھی چیلنج کیا جاتا ہے ۔ جس کے باعث عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ، ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو خود اس کا حل نکالنا ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج تھے تو وہ ایسے غیر ضروری مقدمات پر درخواست گزاروں کو نہ صرف جرمانہ عائد کرتے بلکہ ان کی سخت سرزنش بھی کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے جب تک وہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے بہت کم غیر ضروری درخواستیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دا ئر ہوئیں ۔
دراصل پی ٹی آئی رہنما کسی بھی طریقے سے پارٹی چیئرمین کو جیل سے رہا کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو شائد اس کا ادراک نہیں ،ان کے مذکورہ طریقے عمران خان کی قید میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کرینگے ،ان کو سمجھ جانا چاہیے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے قومی اسمبلی، سینیٹ متعلقہ فورمزبالکل بھی نہیں ہیں ۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت سب کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں تو اس کیلئے صرف قانونی طریقوں پر چلنا ہوگا، احتجاج، مظاہرے،گالی گلوچ اور جارحانہ طرز سیاست کو چھوڑنا ہوگا ، اگر وہ اپنا طرز سیاست اسی طرح جاری رکھیں گے تو اس سے عمران خان کی مشکلات کم نہیں بلکہ مزید بڑھیں گی ۔