خیبر پختونخوا (کے پی) پاکستان کا وہ صوبہ ہے جو نہ صرف دہشت گردی اور قدرتی آفات سے شدید متاثر ہے بلکہ معاشی اور سماجی طور پر بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ، جو ہر پانچ سال بعد نظرثانی ہونا چاہیے تھا، پندرہ سال سے تعطل کا شکار ہے، جو کہ متواتر حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ موجودہ ایوارڈ آبادی کے تناسب پر مبنی ہے، جو کہ پسماندگی، غربت، اور سماجی و اقتصادی اشاریوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا کو اس کی جغرافیائی و معاشی مشکلات، دہشت گردی، اور نئے ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) کی ترقی کے لیے اضافی وسائل کی ضرورت ہے، لیکن وفاق اس وعدے سے مکر رہا ہے۔ 2023-24 کے لیے صوبے کا حصہ 262 ارب روپے ہونا چاہیے تھا، مگر صرف 123 ارب مختص کیے گئے، جس سے 139 ارب کا خسارہ ہوا۔
صوبے کی مالی مشکلات، توانائی کے زیادہ نرخوں، اور دہشت گردی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے رُک گئے ہیں۔ صحت، تعلیم، اور امن و امان جیسے شعبوں میں کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو۔ بدقسمتی سے، این ایف سی کمیشن میں کے پی کی نمائندگی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہر کر رہے ہیں، جو صوبے کے مسائل کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
دوسری جانب، کراچی اور گوادر جیسے شہروں میں صاف پانی کی عدم دستیابی ایک انسان ساختہ بحران ہے۔ کرپشن اور بدانتظامی نے صوبوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے روک رکھا ہے۔ وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے شفافیت، احتساب، اور صوبوں کی کارکردگی پر مبنی این ایف سی ایوارڈ کی ضرورت ہے تاکہ خیبر پختونخوا جیسے پسماندہ صوبوں کو ان کا جائز حق مل سکے۔
خیبر پختونخوا کی مشکلات اور این ایف سی ایوارڈ کی نظرثانی کی ضرورت
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔2 Mins Read