پروگرام خیبر آن لائن میں خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کی حالیہ لہر پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور خیبرنیوز کے چیف ایڈیٹر مبارک علی نے بتایا کہ امن و امان خیبر پختونخوا کا سب بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اگر اس مسلے کو بروقت حل نہیں کیا گیا تو یہ مسئلہ پورا ملک تک پھیل جائے گا۔
دہشتگردی کی حالیہ لہر خیبر پختونخوا کے تقریباً تمام علاقوں تک پھیل چکی ہے، گزشتہ 48 گھنٹوں میں صوبے کے صرف تین اضلاع میں مختلف واقعات میں 23 دہشتگرد مارے گئے ہیں جبکہ آرمی کے کیپٹن سمیت 7 اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ یہ صورتحال ملکی قیادت کے لئے الارمنگ ہونا چاہئے۔
دہشتگردی کے اہم معاملے پر سب سے بڑی ناکامی ایک قومی بیانیہ کی ہے جو سیاسی اور عسکری قیادت آج تک نہیں بنا سکے، نیشنل ایکشن پلان کے نام پر جو اتفاق رائے بن پایا تو وہ بھی چند سالوں میں ختم کردیا گیا اور ایکشن پلان میں شامل 20 نکات میں سے صرف چند پر ہی عمل ہوسکا اور اسکی وجوہات بھی دہشتگردی نہیں بلکہ کچھ اور تھا۔
دہشتگردی کا مسلہ خیبر پختونخوا کے لئے اتنا گھمبیر ہوچکا ہے کہ یہ کسی حکومت یا چند افراد کے بس کا کام نہیں رہا کہ وہ اسکو حل کرسکے۔ دہشتگردی کا مسلہ اپنی پیچیدگی کی وجہ سے حل بھی مختلف الخیال ہونا چاہے، دہشتگردی کے انسداد کے لئے ضروری ہے کہ ایک وقت پر مخلتف منصوبہ بندی کی جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہو۔ مگر مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے لئے امن و امان کا مسلہ ایک دائمی مسلہ بن چکا ہے مگر صوبائی قیادت کی سنجیدگی کا اندازہ گزشتہ ہفتے پیش کیے گئے بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے جسمیں دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے اور امن و امان بحالی کے لیے مخص چند ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اگر صوبہ خیبر پختونخوا کی اپنی فورس کی بات کی جائے تو دہشتگردی سے نمٹنے میں جو فورس براہ راست ملوث ہے وہ سی ٹی ڈی ہے مگر یہ دیگر صوبوں کی نسبت سے کم وسائل سے کام کررہی ہے جو کہ پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی ہے۔