پشاور:لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں طلب کیے جانے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم نے سماعت کے دوران وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے استفسار کیا کہ ضمانت کے باوجود گرفتاریاں ہورہی ہیں؟ عدالتی احکامات ہیں کہ ضمانت کے بعد گرفتاریاں نہیں ہوں گی، لاپتہ افراد کے خاندان ہمارے پیچھے آتے ہیں ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضمانت منسوخی کے لیے سپریم کورٹ چلے جائیں، اس طرح لوگوں کو اغوا نہ کریں، یہ پہلا واقعہ نہیں، بار بار ایسا ہوتا رہا ہے، عدالتی احکامات پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
عدالت نےکہا کہ ہم مجبوراً اب پولیس والوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے، اس موقع پر وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ اس طرح کے معاملات کا میں خود مخالف ہوں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ ایڈووکیٹ جنرل جواب جمع کرائیں اور سی ٹی ڈی، پولیس سب کو بٹھا کر معاملے کو دیکھیں۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے عدالت سے کہا کہ فوکل پرسن دے دیں، ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ مل کرہم قانون سازی کریں گے۔
بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ کہ دوہزار سترہ کے پولیس ایکٹ پر کام کررہے ہیں تاکہ کوئی بھی اپنی طاقت کو بے جا استعمال نہ کرسکے، نگران حکومت میں پولیس پر وہ کام کروائے گئے جو وہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ جہاں جہاں ہمیں حکم ملے گا وہ جلسہ کرینگے، یہ گولیاں، تشدد ہمارا وقت ضائع کرسکتا مقصد تبدیل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعلی ہوں اپنے وسائل ڈنکے کی چوٹ پر استعمال کرونگا ۔میری مشینری راستہ اس لئے کلئیر کرے گی کیونکہ میں اس صوبے کا وزیراعلی ہوں انھوں نے پنجاب پولیس کو وراننگ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کا غلط حکم نہ مانیں ،نتائج آپ نے خود بھگتنے ہونگے۔