پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحرير: ۔
پشتون ہمیشہ سے میرے لیے دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ ایک وجہ تو یقیناً یہ ہے کہ میں خود ایک نجیب الطرفین محمدزئی پشتون ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پشتونوں کے بارے میں جتنا بھی لکھا گیا ہے، کم از کم میں کئی تحقیقی حوالوں سے اسے مستند اور معتبر نہیں سمجھتا۔ پشتونوں کے بارے میں یا خود پشتونوں نے لکھا ہے یا پشتون مخالف تاریخ نویسوں نے۔ جو اپنوں نے لکھا ہے، اس کے مطابق تو ہم واحد انسانی نسل ہیں جو خالق کے محبوب ترین اور اعلیٰ ترین ہیں۔ جو اغیار نے کہا ہے، وہ بھی بغضِ معاویہ میں کہا ہے۔ ہم بہرحال اتنے بُرے بھی نہیں ہیں۔
پشتونوں کے بارے میں میری تیسری دلچسپی یہ ہے کہ ان کی ذہنی تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ دو پشتون لکھاری اور دانشور ایسے ہیں جنہیں میں بہت زیادہ مستند بلکہ اپنا استاد مانتا ہوں۔ سعد اللہ جان برق پشتونوں کی تاریخ اور اصل و نسل کے بارے میں جو کہتے ہیں، وہ پتھر پر لکیر ہوتی ہے۔ افراسیاب خٹک پشتونوں کی سیاست اور سماج پر جو کہتے اور لکھتے ہیں، گویا میرے نزدیک حتمی ہوتا ہے۔
میں ادبیات کی بات نہیں کر رہا، ورنہ پھر تو میرے اساتذہ، بزرگ اور دوست بے شمار ہیں۔ دوست محمد خان کامل، کاکا جی صنوبر حسین، قلندر مومند، سید تقویم الحق کاکا خیل، پروفیسر ڈاکٹر صاحب شاہ صابر، رحمت شاہ سائل اور کئی دیگر معتبر دوست ہیں۔
افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ پشتونوں کی تاریخ بڑی شاندار مگر جغرافیہ انتہائی بُرا ہے۔ مجھے ان سے اتفاق نہیں ہے۔ جغرافیہ ہمارا قیمتی اثاثہ تھا مگر ہم اتنے نااہل تھے کہ اس کو اپنا رِستا ہوا زخم بنا لیا۔ تاریخ اگر ہماری شاندار ہوتی تو آج ہم جغرافیہ سے مستفید ہوتے، اس کا رونا نہ روتے۔
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ پشتون بحیثیت قوم روشن فکر اور ترقی پسند لوگ تھے، مگر سامراجی استعماری قوتوں نے انہیں شدت پسند بنایا۔ میں اس خیال سے بھی متفق نہیں ہوں۔ ہم تھے ہی شدت پسند اور ہم ہیں ہی شدت پسند۔ کسی بھی قوم کو جاننے کے لیے اس کے فولک لٹریچر کو جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ میں تو خود اس کا بہت زیادہ قائل ہوں۔ ہمارے فولک لور کو دیکھ لیجیے۔ ملا اور طالب کے شعری و نثری مواد سے بھرا ہوا ہے۔ ہزاروں سال کے پشتو عوامی ادب کو آپ مطالعہ کریں گے تو آپ کو طالب اور ملا غالب نظر آئیں گے۔ تو کیا میں یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہوں کہ مذہبیت ہمارے ڈی این اے میں ہے؟ ہم واقعی مذہبی جنونیت میں مبتلا قوم ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لبرلز، ترقی پسند، قوم پرست اور جمہوریت نواز پشتون سیاسی جماعتوں کو پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری جانب کسی بھی شکل میں ہو، لیکن لوگ مذہبی نعرے کے پیچھے جاتے ہیں۔ وہ نعرہ بھلے عمران خان کا ریاستِ مدینہ کا پُرفریب ڈھکوسلہ کیوں نہ ہو۔ تو یہ سب کیا ہے؟ سوویت یونین نے ترقی پسند پشتونوں کو اقتدار میں لایا تھا۔ کیوں عوام نے انہیں مسترد کیا؟ امریکہ نے بھی تو بیس سال لبرلز اور جمہوریت نوازوں کو پالا پوسا۔ کیوں وہ سب بھاگ گئے؟ آج امریکہ طالبان کو بٹھانے پر کیوں مجبور ہوا؟ آج چین طالبان کا ساتھ کیوں دے رہا ہے؟ روس کیوں طالبان کا سب سے بڑا حامی بنا ہے؟
جی ہاں، وقت، حالات، تاریخ اور تجربات نے یہی ثابت کیا کہ پشتون یہی ہے جو نظر آ رہا ہے۔۔۔ یہ کبھی ترقی پسند، لبرل اور جمہوریت نواز ہو ہی نہیں سکتا۔ جو پشتون قوم پرست جماعتیں افغان قومی وحدت اور گریٹر پشتونستان کی باتیں کر رہی تھیں، کیا آج تیار ہیں مولوی ہیبت اللہ کی امارت میں پشتونستان بنانے کے لیے؟
امریکہ نے بہت چاہا کہ اس خطے میں پشتونوں کو اسرائیل کی حیثیت دے، مگر آج طالبان کی حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ پشتونوں کی بچت پاکستان کے قومی دھارے میں شامل ہونے میں ہے۔ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے حقوق کی جنگ لڑنی ہے۔ آج جو بھی پشتون لکھاری پشتونوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، وہاں عقل سے پیدل پشتون اسے فوراً غدار اور ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں۔ اباسین یوسفزئی کی مثال ابھی تازہ تازہ سب کے سامنے ہے۔ پشتونوں، حقیقت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے آپ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے ہو، اپنی آنے والی نسلوں کی بربادی کا سامان خود اپنے ہاتھوں سے کرتے جا رہے ہو۔
ہاں، یاد آیا "ملا محمد جان” میرا پسندیدہ گانا ہے، اس لیے بطور ہیڈ لائن لکھا ہے۔ دیکھیے، میرے اندر بھی ایک ننھا منا طالب چھپا بیٹھا ہوا ہے۔