افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف ایک اہم اور سخت مؤقف سامنے آیا ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان یا کسی بھی غیر ملکی سرزمین پر جہاد کا اعلان کرنا یا وہاں لڑنا، ریاستی امیر کی اجازت کے بغیر، شریعت کی روشنی میں جائز نہیں اور یہ عمل دینی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ طالبان کے سینئر کمانڈر سعیداللہ سعید نے اس بیان میں ان عناصر کو "فتنۃ الخوارج” قرار دیا جو ریاستی قیادت کے حکم کے خلاف جہاد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
سعیداللہ سعید کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جو اپنی مرضی سے گروہوں میں شامل ہو کر یا ذاتی نظریات کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں حملے کرتے ہیں، وہ نہ صرف شریعت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ امارت اسلامیہ افغانستان کے بھی نافرمان تصور کیے جائیں گے۔ ان کے بقول جہاد ایک انتہائی نازک اور مقدس عمل ہے جس کی اجازت دینا صرف اور صرف ریاستی امیر کا اختیار ہے۔ کسی فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی سوچ، رائے یا نظریات کی بنیاد پر کسی دوسرے ملک میں جہاد کا اعلان کرے۔
طالبان کمانڈر نے زور دے کر کہا کہ جو لوگ افغانستان سے نکل کر پاکستان میں جہاد کے نام پر دہشتگردی کرتے ہیں، وہ حقیقت میں مجاہد نہیں بلکہ فساد پھیلانے والے عناصر ہیں۔ انہوں نے اسے شریعت کے خلاف ایک بغاوت قرار دیا اور کہا کہ اگر امیر کی طرف سے پاکستان نہ جانے کا حکم موجود ہے، تو اس کی خلاف ورزی کرنا دینی اور نظریاتی بغاوت کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جو اپنی انا، گروہی وابستگی یا ذاتی دشمنی کی بنیاد پر "جہاد” کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ اصل میں دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں، نہ کہ اس کی خدمت کر رہے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین کے دارالحکومت بیجنگ میں افغانستان، پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ایک اہم سہ فریقی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں تینوں ممالک نے خطے میں امن، استحکام اور باہمی تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ افغانستان کی جانب سے اس ملاقات کے دوران واضح طور پر کہا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا جو پاکستان یا چین کے مفادات کے خلاف سرگرم ہو۔
افغان وزیر خارجہ نے اجلاس میں پاکستان اور چین کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ امارت اسلامیہ افغانستان اُن تمام گروہوں کے خلاف کارروائی کرے گی جو افغانستان سے باہر دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ہیں یا سی پیک جیسے منصوبوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ افغان حکومت کا یہ مؤقف کہ پہلے خطے میں امن قائم کیا جائے اور پھر تجارت کو فروغ دیا جائے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب طالبان ایک ذمہ دار ریاستی کردار کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیجنگ مذاکرات کے فوری بعد افغان طالبان کی قیادت کی جانب سے فتنتہ الخوارج یعنی ٹی ٹی پی کو مخاطب کرتے ہوئے جو سخت بیان سامنے آیا، وہ اس بدلتے ہوئے مؤقف کی ایک واضح علامت ہے۔ طالبان کے کمانڈر نے نہ صرف ٹی ٹی پی کی پاکستان میں سرگرمیوں کو غیر شرعی قرار دیا بلکہ ان کی سرگرمیوں کو فساد فی الارض کا نام دے کر سخت مؤقف اختیار کیا۔
اس صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغان حکومت اب نہ صرف داخلی امن پر توجہ دے رہی ہے بلکہ خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نظر آ رہی ہے۔ طالبان کی قیادت اب اس حقیقت کو تسلیم کرتی دکھائی دیتی ہے کہ پرامن افغانستان ہی ایک مضبوط ریاست اور مستحکم معیشت کی بنیاد بن سکتا ہے۔
یہ مؤقف بھارت جیسے ان عناصر کے لیے بھی ایک دھچکہ ہے جو افغانستان میں مختلف دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں تاکہ خطے میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔ افغان طالبان کی نئی پالیسی اور بیانات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ وہ اب ایسے تمام عناصر کو ناپسندیدہ قرار دے رہے ہیں جو ان کی ریاستی خودمختاری، نظریاتی سلامتی اور سفارتی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
افغان طالبان کے حالیہ بیانات اس نئی پالیسی اور بدلتے نظریاتی رویے کی عکاسی کرتے ہیں جس میں مذہب، ریاست اور سیاست کو ایک نئے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اگر اس پالیسی کو خلوصِ نیت سے جاری رکھا گیا تو یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے امن، ترقی اور استحکام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔