اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس جاری ہے، جس میں آٹھ رکن ممالک کے اعلیٰ حکام شریک ہیں۔ یہ اجلاس ایک اہم وقت پر ہو رہا ہے کیونکہ عالمی سیاسی منظرنامے میں تبدیلی اور علاقائی تعاون کی ضرورت میں شدت آتی جا رہی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم سال 2001 میں قائم ہوئی، جس کا مقصد اپنے اراکین کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی تعاون کو فروغ دینا ہے، رکن ممالک میں چین، قازقستان، کرغزستان، روس، تاجکستان، ازبکستان، ہندوستان اور پاکستان شامل ہیں۔ ایران بھی حال ہی میں مستقل رکن کے طور پر شامل ہوا ہے، جس سے تنظیم کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان 2005 میں بطور مبصر ملک شامل ہوا،2010 میں مستقبل رکنیت کیلئے درخواست جمع کی، 2015 میں مستقل رکنیت کی درخواست منظور ہوئی اور سال 2017 میں اس کا مکمل رکن بنا۔
ایس سی او اجلاس کی اہمیت
ایس سی او کے اس اجلاس کا وقت انتہائی اہم ہے۔ چونکہ دنیا بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے سے دوچار ہے، تنظیم کی توجہ انسداد دہشت گردی اور اقتصادی ترقی سے لے کر وسیع تر بین الاقوامی تعلقات کی طرف بڑھ گئی ہے۔ مبصرین یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم اہم عالمی مسائل اور اندرونی اختلافات کو کس طرح حل کرے گی، خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات اور چین کے بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے پیش نظر۔
کانفرنس کے لیے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے دورہ پاکستان نے خاصی توجہ حاصل کرلی ہے، حالانکہ دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کی توقعات کم ہیں۔ کسی بھارتی وزیر خارجہ کا آخری دورہ پاکستان 2015 میں ہوا تھا اور سفارتی تعلقات کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تعلقات میں کسی قسم کے پگھلاؤ کا امکان نظر نہیں آتا۔ تاہم جے شنکر کی موجودگی خطے میں بات چیت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
ایس سی او اجلاس پاکستان کے لیے دوسرے رکن ممالک کے ساتھ پیچیدہ عالمی چیلنجوں، بشمول ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور یوکرین میں جاری تنازعات کے درمیان ایک اہم موقع کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان کے لیے ممکنہ فوائد
اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بڑے نتائج ہو سکتے ہیں، لیکن پاکستان کیلئے زیادہ اہم وزیراعظم شہبازشریف کی اجلاس کے سائید لائن پر ملاقاتیں ہوں گی۔ اس دوران توقع کی جاسکتی ہے کہ مختلف ممالک اور خاص کر چین، روس کیساتھ پاکستان کی اہم معاہدوں پر بات چیت ہوگی۔ خاص طور پر توقع ہے کہ چینی قیادت پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر تبادلہ خیال کرے گی، جس سے چین پاکستان سی پیک کے منصوبوں کو تقویت مل سکتی ہے اور باہمی سیکیورٹی تعاون میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ان پیچیدہ مسائل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے اعلانات اور قراردادیں عالمی معاملات پر اجتماعی موقف کی عکاسی کر سکتی ہے۔ رکن ممالک کے ردعمل پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ اس کے نتائج آنے والے سالوں میں علاقائی استحکام اور تعاون کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔