(مدثر حسین) واحد گل تین سال کا تھا جب اسکے والدین سوویت روس کے افغانستان پر حملے کے وقت جان بچانے کے لیے پاکستان ہجرت کر گئے، اب واحد گل اڑتالیس سال کا ھے، وہ میویشیوں کی خرید وفرخت کا دھندا کرتا ھے، اور خود چھ بچوں کا باپ ھے۔ واحد گل ضلع ملاکنڈ کے افغان مہاجر کیمپ میں ایک کچے مکان میں رہ رہا ہے۔ اسکے بچے پاکستانی سکول جاتے ہیں۔ علاج کے لیے پاکستانی ہسپتال سے دوا لیتے ہیں۔ انکی زبان بھی اب افغان پشتو سے مقامی یوسفزئی لہجے میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ واحد گل کو افغانستان کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔ یہی حال اسکے چھ بچوں کا ہیں۔ تاہم پاکستان میں یہ مہاجر خاندان غیر قانونی طریقے سے رہ رہا ہیں اور اصولآ انہیں کسی بھی وقت ملک بدر کیا جاسکتا ہیں۔
اکتوبر 2023 میں حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کو زبردستی بیدخلی کے بارے میں مہلت دی تھی، واحد گل نے چھپ چھپاتے وہ مہلت گزار دی۔ لیکن انکی مشکلات تھمنے والی نہیں کیونکہ روزگار سے لیکر عدالت تک غیر قانونی مہاجرین کی زندگی مشکلات سے پر ہوتی ہیں۔ تاہم پھر بھی واحد گل کو افغانستان جانا قبول نہیں۔
یہ کہانی صرف واحد گل کی نہیں بلکہ ان لاکھوں افغان مہاجرین کی ہیں جو غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں عشروں سے رہائش پزیر ہیں۔ اتنا عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بھی انہیں عوامی طور پر مہاجر بولا جاتا ہیں۔ اسلام آباد،کوئٹہ اور پشاور کے چند درجن ہائی فائی افغان مہاجرین کو چھوڑ کر باقی سب کی حثیت سیکنڈ کلاس شہری کی سی ھے۔ ان مہاجرین کے خلاف وقتاً فوقتاً کریک ڈاونز بھی ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے آبائی ملک جانے کو تیار نہیں۔
پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان مہاجرین کے متعلق رائے عامہ خلاف ہوچکی ہیں۔ اسی طرح ان غیر قانونی مقیم مہاجرین میں سے چند افراد کے جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے پوری افغان کمیونٹی کو تعصب اور نفرت کا سامنا ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ تعصب اور نفرت پوری دنیا میں مہاجرین کے خلاف تیزی سے بڑھ رہا ھے۔ چاہے وہ لبنان میں شامی مہاجرین ہوں یا جرمنی میں عراقی مہاجر، امریکہ میں ساوتھ امریکی مہاجر ہو یا برطانیہ میں پاکستانی ایمگرینٹس، میزبان ممالک میں ان تارکین وطن کو عوامی سطح سے لیکر حکومتی سطح تک اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا. ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بن جانے کے بعد امریکی سرزمین پھر سے تارکین وطن کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے۔
ٹرمپ نے انتخابی کمپین کے وقت بھی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے وعدے کیے تھے۔ یورپ میں بھی انٹی ایمگرینٹ جذبات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ اٹلی، جرمنی، سپین، اور فرانس میں تارکین وطن کے اوپر اکثر مقامی قوم پرست عناصر حملے بھی کرتے رہتے ہیں۔ ائے دن کشتیوں کے ڈوبنے اور درجنوں تارکین وطن کی سمندر برد ہونے کے خبریں اتی رہتی ہیں۔ پنجاب کے چند اضلاع کے مخصوص علاقوں میں نوجوانوں کا ڈنکی لگا کر یورپ جانا فیشن بن چکا ہیں۔ عالمی ادارہ برائے ہجرت کے اعداد وشمار کے مطابق یورپ جانے کی کوشش کرنے والے بیشتر تارکین وطن معاشی وجوہات کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر خطرناک راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ چند خوش قسمت منزل پر پہنچ جاتے ہیں لیکن بیشتر ایجنٹ کے ہتھے چھڑ کر لٹ پٹ واپس اتے ہیں یا راستے میں موت کو گلے لگاتے ہیں۔جو افغان مہاجرین اپنا ملک چھوڑ رہے ہیں، انکی پہلی ترجیح یورپ اور پھر پاکستان ھے۔ دوسری طرف پاکستان کے اپنے نوجوان جوق در جوق ملک چھوڑ رہے ہیں۔ بھلے اسکے پیچھے معاشی عوامل کار فرما ہوں لیکن سوشل میڈیا پر یورپ کی چکاچوند یا پھر زات برادری میں ایک نوجوان کا یورپ سیٹل ہونا، باقیوں کے ترک وطن کے لیے کافی ہیں۔
یہ نوجوان اپنے ملک میں کام کاج پر شرماتے اور گوروں کے گندے کپڑے دھونے پر فخر کرتے ہیں۔ ارد گرد میں اچھے بھلے سرکاری اور پرائویٹ سیکٹر کے ملازمین بھی باھر سیٹل ہونے کو مقصد حیات بنائے ہوئے ہیں۔ مہاجرین کا مسلہ اب مقامی نہیں بلکہ گلوبل کرائسز کی شکل اختیار کرچکا ھے۔ اس عالمی مسلے کی اہم وجہ دولت کی وہ تقسیم ھے جس نے اشیاء کی پیداوار کرنے والے ممالک کو غریب اور ان اشیاء کی فنشنگ کرنے والے ممالک کو امیر بنایا ہیں۔ اکسفیم نامی عاپمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق عالمی دولت کا 90 فیصد حصہ صرف 4 فیصد ابادی کے پاس ہیں۔ باقی اربوں لوگ مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ امیر ممالک تیسری دنیا کےممالک کے قدرتی وسائل نچوڑ کر اپنے ملک لیجاتے ہیں۔ یہ امیر ممالک اپنے مفادات کی جنگیں بھی تیسری دنیا کے ممالک میں لڑتے ہیں۔ جب تک امیر ممالک ان تھرڈ ورلڈ کنٹریز کو انکا حق نہیں دیتے تب تک عالمی ہجرت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور جب تلک افغانستان میں عشروں پر محیط استحکام نہیں آتا، تب تک پاکستان سے مہاجرین کا انخلاء جزو وقتی بات ہوگی۔