افغانستان جو اب دہشت گرد تنظیموں کا مرکز بن چکا ہے، خاص طور پر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے سرحدی صوبوں میں دہشت گردوں کی تربیت کے لیے 7 کیمپ کام کر رہے ہیں، جن میں سے ایک صوبہ کنڑ میں واقع ہے اور یہ کیمپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کنٹرول میں ہے، جہاں خودکش بمباروں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں میں دہشت گردوں کو جدید اسلحہ اور دہشت گردی کی تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گرد حملے کرے۔
ان کیمپوں کے بارے میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دہشت گردی کے مراکز صرف پاکستان کے فوجی اہداف تک محدود نہیں، بلکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں افغان حکومت کی طرف سے دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کی تصدیق کی گئی ہے، جنہیں پاکستان میں حملے کرنے کے لیے مختلف وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔
افغان عبوری حکومت کا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور وسائل کی فراہمی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان عبوری حکومت (طالبان) دہشت گرد تنظیموں جیسے ٹی ٹی پی کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کو افغان حکومت کی طرف سے ماہانہ 500 ڈالر تک وظیفہ دیا جاتا ہے۔ یہ رقم ان دیگر مراعات کے علاوہ ہے جو افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کی جاتی ہیں۔
افغان حکومت کی حمایت کے بغیر یہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے کیمپ قائم نہیں کر سکتیں، اور یہ بھی واضح ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے دہشت گردی کی کارروائیوں کو فروغ دینا پاکستان کے خلاف ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف پاکستان میں، بلکہ مغربی ممالک میں بھی دہشت گرد حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پولیس کانسٹیبل محمد ولی کی گرفتاری کے بعد دیے گئے اقراری بیان میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ افغان حکومت کی حمایت سے ان دہشت گرد گروپوں نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کے لیے مقامی افراد کو استعمال کیا ہے۔ محمد ولی نے بتایا کہ وہ فیس بک کے ذریعے جماعت الاحرار کے ایجنٹ کا شکار ہو کر افغانستان پہنچا، جہاں اسے کنڑ کے دہشت گرد کیمپ میں تربیت دی گئی۔
امریکی اسلحہ کا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنا ایک نیا عالمی خطرہ
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے وقت 83 ارب ڈالر کا جدید اسلحہ چھوڑا گیا، جو اب طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں آ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اسلحہ اب افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے، جس سے خطے کے امن و سکون کے لیے ایک نیا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ عالمی میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ طالبان نے اس اسلحے کا استعمال اپنے جنگی مقاصد کے لیے کیا ہے اور اسے پاکستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کا امکان بھی موجود ہے۔
بین الاقوامی امداد اور دہشت گردی کی مالی معاونت
دوسری طرف، بین الاقوامی امداد بھی دہشت گردوں کی مدد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے لیے اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی، لیکن رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ان امدادی رقوم کا ایک بڑا حصہ طالبان کی حکومت اور دہشت گرد گروپوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے دی گئی امداد کا بھی ایک حصہ خودکش بمباروں کے خاندانوں کو دیا جا رہا ہے، جبکہ طالبان کی مرکزی بینک میں جانے والی امداد حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔
عالمی دہشت گردی، ایک بڑھتا ہوا خطرہ
افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی صورتحال نہ صرف پاکستان کے لیے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ دہشت گرد گروہ جو اب جدید اسلحہ اور وسائل سے لیس ہیں، انہیں عالمی سطح پر دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کا جغرافیائی محل وقوع، جو وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر ہے، اس خطرے کو مزید بڑھاتا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران اتنے بڑے مقدار میں اسلحہ چھوڑنے کا کیا فائدہ تھا، خاص طور پر جب ان اسلحے کو دہشت گرد گروہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
فوری اقدامات کی ضرورت
افغانستان کی صورتحال فوری عالمی کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔ طالبان کی دہشت گرد گروپوں کی حمایت، دہشت گردی کے کیمپوں کی موجودگی، اور بین الاقوامی امداد کا غلط استعمال دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو مزید بڑھا رہا ہے۔ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو افغانستان عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری اس بحران کا حل تلاش کرے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرے تاکہ اس خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ممکنہ طور پر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔