مجھے اس میں کوئی تردد نہیں کہ میں سیاست، سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کے خلاف کھل کر بات کروں ۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی مجھے فوجی دلال کہے یا جمہوریت دشمن ۔ یہی ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارا رویہ کبھی سیاسی اور سائنسی نہیں رہا ۔ ہم نے سیاست کو بھی پیری فقیری اور مذہبی اعتقاد کی طرح اندھی تقلید کے حوالے کر دیا ہے ۔
قیامِ پاکستان سے پہلے برصغیر میں نہ کوئی مستحکم سیاست تھی، نہ جمہوریت ۔ انگریز سامراج نے جب برصغیر کی تقسیم کا اصولی فیصلہ کر لیا تو اسی دوران سیاست اور سیاسی جماعتوں کی بنیاد رکھی گئی ۔ اگر وہ موہن داس گاندھی کی کانگریس تھی یا محمد علی جناح کی مسلم لیگ، دونوں کے خدوخال اسی دورِ سامراج نے ترتیب دیئے ۔
برطانوی حکومت نے البتہ کانگریس کی قیادت عام ہندوؤں کے حوالے کر دی، جبکہ مسلم لیگ نوابوں، جاگیرداروں، خان بہادروں، سرمایہ داروں اور انگریز سے خطاب یافتہ اشرافیہ کے ہاتھ میں دے دی گئی ۔
اسلام پسند مذہبی رہنما اور قوتیں تذبذب کا شکار رہیں ۔ انہوں نے الگ سے کوئی واضح موقف اختیار نہ کیا ۔ بعض نے اپنے صوابدید کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ۔
وہ وقت بھی آیا جب “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ” کا نعرہ بلند ہوا، لیکن علما نے مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاست کی جدوجہد میں حصہ نہ لیا ۔ بحیثیت مذہبی قوت وہ منقسم اور خاموش رہے ۔ دیوبند کے اکابرین اور دیگر جید علما نے ہندوستان کی تقسیم اور مذہب کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان کی عملاً مخالفت کی ۔ (حوالہ: مولانا حسین احمد مدنی اور جمعیت علمائے ہند کی قراردادیں)
دوسری طرف روس اس خطے کے مستقبل کے بارے میں بے حس اور غیر متعلق رہا ۔ نہ اسے انگریز کی موجودگی اپنے خلاف محسوس ہوئی، نہ ہی انگریز کے جانے کے بعد اس نے کوئی حکمتِ عملی اپنائی ۔ یوں غیر منقسم ہندوستان میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ افکار کی حامل سیاسی قوتیں پس منظر میں ہی رہیں ۔
خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی خدائی خدمتگار تحریک اگرچہ کانگریس کے لیے سیاسی تھی، مگر پشتونوں کے لیے یہ ایک سماجی خدمت کی تحریک سے بڑھ کر نہ بن سکی ۔
گاندھی نے انگریز کو پشتونوں سے ڈرا کر اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کی، جبکہ برصغیر کی تقسیم میں پشتونوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا، سوائے ریاست کے ساتھ ایک بداعتمادی کے جو آج بھی باقی ہے ۔
افغانستان بھی برصغیر کی تقسیم کے وقت اپنے علاقوں کی واپسی کے مطالبے پر خاموش رہا ۔ یہ خاموشی، خواہ افغان حکومت کی ہو یا باچا خان کی، سیاسی بصیرت کے فقدان کے سوا کچھ نہیں تھی ۔
بلوچستان کے سردار صرف اپنے لوگوں کے استحصال کو جاری رکھنا چاہتے تھے ۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ بلوچستان پر کس کی حکمرانی ہو گی ۔ ان کے لیے انگریز، ہندو یا پاکستان، کوئی فرق نہ تھا، بس بلوچوں پر ان کی اپنی رعایت برقرار رہنی چاہیے تھی ۔
پاکستان کے قیام کے بعد یہی سیاسی اشرافیہ ابتدا ہی سے اپنا اقتدار اور تسلط جمانے کے لیے مختلف پینترے بدلتی رہی ۔ مختلف سیاسی جماعتیں مختلف ناموں، پرچموں اور منشوروں کے ساتھ سامنے آتی رہیں، جو پرانی شراب کو نئی بوتل میں بھرنے کی مثال تھیں ۔
اسی سیاسی اشرافیہ سے جمہوریت، سوشلزم، نظامِ مصطفیٰ اور قوم پرستی کے بچے جمورے نکلتے رہے، مگر مقصد ایک ہی تھا، پاکستان کی حکمرانی ۔
ان طویل عشروں میں یہ تمام سیاسی جماعتیں مکمل طور پر بے نقاب ہو چکی ہیں ۔ ان کے افکار، نظریات، جمہوریت پسندی، اصول پرستی، عملی حکومتیں اور ان کے بدلتے چہرے اس کے تاریخی ثبوت ہیں ۔ ان رہنماؤں کا عام سے خاص ہونا، جھونپڑیوں سے محلات میں جانا، اور محلات سے سوئس بینکوں کو بھرنے تک کا سفر، ان کا اصلی چہرہ ہے ۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ فوجی اشرافیہ نے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری کلچر کے فروغ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، ورنہ سیاسی جماعتیں شہد اور دودھ کی نہریں بہاتیں ۔ لیکن زمینی حقائق اس کے حق میں نہیں ۔
پاکستان کی ہر سیاسی جماعت،خواہ وہ بظاہر ایک دوسرے کی مخالف ہی کیوں نہ ہو ، فوج کے ساتھ ان کے مراسم، حاصل شدہ مراعات، اور ایک دوسرے کی مخالفت میں فوج کا ساتھ دینا، اصل کہانی سناتا ہے اور ان کے چہروں کو بے نقاب کرتا ہے ۔
فوج تب تک خاموش تماشائی تھی جب تک اس نے اپنی بنیادی طاقت نہیں بنا لی تھی، اور جب تک سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما ننگے نہیں ہو گئے تھے ۔
میں قطعاً اس کے حق میں نہیں ہوں کہ فوج سیاست میں آئے یا پاکستان میں کوئی کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہو، لیکن فوج کو بار بار یہ مواقع کون فراہم کرتا ہے؟
اگر یہ خلا فوج نہ بھرے تو کیا پاکستان قائم رہ سکے گا؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر عام پاکستانی کو آج سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیجیے، کون سی جماعت بااخلاق ہے؟ کون منشور اور نظریے پر قائم ہے؟ کون غیر موروثی ہے؟ کون نظریاتی کارکنوں کو مواقع دیتی ہے؟
ان کے قائدین کرپشن سے پاک ہیں؟
مولانا فضل الرحمان، میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کن لوگوں کو اسمبلیوں اور سینیٹ کے ٹکٹ جاری کرتے ہیں؟ وزارتیں، عہدے اور مراعات کیا عام نظریاتی کارکنوں میں بانٹتے ہیں یا مخصوص لوگوں کو نوازتے ہیں؟
سینیٹ کے انتخابات میں ہر سیاسی جماعت کے قائد خوب دیہاڑیاں لگاتے ہیں ۔
قیامِ پاکستان کے وقت اور آج کے ان تمام سیاسی قائدین کے اثاثے دیکھ لیجیے ۔ پھر بھی اگر عام پاکستانی کو سمجھ نہیں آتی تو ان کی یہ جہنمی زندگی یوں ہی جاری رہے گی ۔
سیاست اور جمہوریت پاکستان میں اب ایک لاش میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ اس لاش سے تعفن اٹھ رہا ہے اور اس کی جلد از جلد تدفین ہونی چاہیے ۔
لوگوں کو پاک فوج سے یہ شکوہ ہے کہ وہ سیاست کو چلنے نہیں دیتی ۔
مگر میرا گلہ پاک فوج سے یہ ہے کہ وہ سیاست اور جمہوریت کو وینٹی لیٹر پر کیوں رکھے ہوئے ہے؟
کیوں اس لاش کی تدفین نہیں کر رہے؟
اور کیوں جمہوریت کے اس لاشے کو عسکری کندھا فراہم کر رکھا ہے؟