ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں جہاں ایران کو میدان جنگ میں متعدد بڑے نقصانات کا سامنا ہے، وہیں عالمی سطح پر بھی ایران تنہائی کا شکار نظر آ رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے جن کی بنا پر ایران دونوں محاذوں پر مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔
پہلا بڑا نقصان ایران کو اس وقت اٹھانا پڑا جب اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے حملے کی پیشگوئی کی جا رہی تھی، لیکن ایران اس حملے کو روکنے میں ناکام رہا۔ ایران کی انٹیلی جنس سروس اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام نظر آئی، کیونکہ اسرائیل نے تہران کے قریب ایک مرکز قائم کیا تھا اور ایران کو اس کی اطلاع تک نہ ہو سکی۔
دوسرا نقصان ایران کو اس وقت اٹھانا پڑا جب اسرائیل نے ایران کی فوجی قیادت کو نشانہ بنایا۔ ایران کے 8 اہم عسکری کمانڈرز، جن میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے۔
اس کے علاوہ ایران کے 9 ایٹمی سائنسدان بھی اسرائیل کے حملوں میں مارے گئے۔ اسرائیل نے ایران کے تیل کے ڈپو اور گیس فیلڈز کو بھی نشانہ بنایا تاکہ ایران کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے۔
اسرائیل کے جوابی حملے ایران کے لیے تشویش کا باعث بنے ہیں، لیکن ایران کے پاس اسرائیل کے جدید اسلحے کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنے جدید ہتھیار نہیں ہیں۔ ایران صرف چار سے پانچ میزائل حملے کر سکتا ہے، لیکن اس کے بعد اسے جنگ جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایران کو صرف اس صورت میں کامیابی مل سکتی ہے اگر وہ بڑی سطح پر کارروائی کرے، لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں۔
دوسری طرف، ایران سفارتی سطح پر بھی تنہا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای نے اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی تو ہے، مگر ان ممالک نے ایران کے ساتھ کسی قسم کا تعاون یا مدد فراہم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ عرب ممالک بھی ایران کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں اور ایران کے بیشتر میزائل اور ڈرونز اردن اور عراق میں ناکارہ کیے جا رہے ہیں، جہاں امریکی ایئر ڈیفنس سسٹم موجود ہیں۔
ایران کی سفارتی تنہائی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ایران نے ابھی تک ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کیے، مگر وہ پوری دنیا کو چیلنج کر رہا ہے۔ ایران کا "مرگ بہ امریکہ” اور "مرگ بہ اسرائیل” جیسے نعروں کے ساتھ عالمی سطح پر مخالفین پیدا ہو رہے ہیں۔
ایران کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت اور وسائل سے بڑھ کر عالمی طاقتوں سے ٹکرا رہا ہے، اور اس کا سفارتی محاذ اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ عالمی دباؤ کا مقابلہ کر سکے۔ اگرچہ پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے دوران عالمی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا کیا تھا، اسرائیل اور بھارت نے تو پاکستان نیوکلئیر سائٹ کو نشانہ بنانے تک کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔
پاکستان نے نہ صرف یہ منصوبہ ناکام بنایا بلکہ عالمی دباؤ کو بھی برداشت کیا اور کامیابی سے ایٹم بم بھی بنالیا۔ آج پاکستان کو عالمی سطح پر کسی قسم کی پابندیوں کا سامنا نہیں ہے اور ان ممالک کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط ہیں،جو پاکستان ک نیوکلئیر پروگرام کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آج آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی پاکستان کو قرضے فراہم کر رہے ہیں۔
ایران کو سمجھنا ہوگا کہ سفارتکاری میں جذبات کی بجائے مفاہمت اور مصلحت سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ایران کے لیے یہی وقت ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حکمت عملی اپنائے، تاکہ وہ کسی بھی قسم کے بحران سے بچ سکے۔