کوئی بھی ریاست کسی سرکاری عہدیدار کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ملکی سلامتی یا بین الاقوامی تعلقات پر مبنی ملکی راز افشا کرے یا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو اسی نوعیت کے مقدمے میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کیس کو مشہور زمانہ سائفر کیس کہا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی اہم وجوہات ہیں جن کی بنا پر عمران خان کو سزا سنائی گئی۔
https://youtu.be/KBWfODBVzqg?si=NPQc-SnY_ofMEWUM
۱۔ عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت میں ہونے کے باوجود ایک انتہائی اہم اور خفیہ سفارتی دستاویز کو سرعام ایک جلسے میں لہرایاجس سے پاکستان کے سفارتی تعلقات کو سخت نقصان پہنچا۔
۲۔ سائفر کیس وقت کی اہم ترین ریاستی شخصیات اور متعلقہ گواہان عدالت میں پیش ہوئے۔
۳۔کچھ عرصہ سے عمران خان کے وکیل جج کے متعدد بار بلانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہو رہے تھے جس پر عدالت نے ملزمان کو قانونی تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سٹیٹ ڈیفنس کونسل مہیا کیے۔
۴۔اِس کیس میں اہم ترین گواہ پرسنل سیکرٹری اعظم خان نے بیان دیا کہ انہوں نے سائفر عمران خان کو دیا جو انہیں واپس نہیں ملا۔
۵۔دوسرے گواہ اور سابق سفیر اسد مجید نے عدالت میں بیان جمع کرایا۔ ان کے بیان کے مطابق سائفر میں نہ تو کوئی سازش تھی اور نہ ہی کوئی دھمکی تھی جیسا کہ عمران خان دعویٰ کرتے رہے ہیں۔
۶۔تیسرے اور اہم ترین گواہ اُس وقت کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود بھی سائفر کے بارے میں عدالت کو بیان دے چکے ہیں کہ سائفر کوئی سازش یا تھریٹ نہیں تھی اور اِس دستاویز کی مس ہنڈلنگ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو کافی نقصان پہنچا۔
۷۔ عمران خان کے اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور عمران خان کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی جس سے ثابت ہوا کہ عمران خان، اعظم خان کے ساتھ مل کر سائفر کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔