اسلام آباد: (تحسین اللہ تاثیر) سال 2024 دنیا بھر میں مختلف عالمی واقعات کے لحاظ سے ایک خونریز اور متنازعہ سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال عالمی سطح پر ہونے والے اہم واقعات نے بین الاقوامی تعلقات، سیاسی منظرنامے، اور معاشی و سماجی حالات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مشرق وسطیٰ میں جاری جنگوں اور تنازعات نے عالمی توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔ اس دوران، عالمی رہنماؤں کی ہلاکتیں، حکومتی تبدیلیاں، اور جنگوں کے تسلسل نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑائی۔ 2024 کو اگر جنگوں، قتل و غارت گری، قحط اور تباہی کا سال کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
مشرق وسطیٰ کا تنازعہ
مشرق وسطیٰ میں اس سال کی سب سے بڑی کشیدگی اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ رہی۔ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اس جنگ نے 2024 تک اپنی شدت برقرار رکھی۔ اسرائیل نے فلسطین کے علاقے غزہ میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا، جس کے نتیجے میں 44 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں افلاس، قحط اور بھوک نے تباہی مچا رکھی ہے، اور وہاں کے شمالی حصے میں عمارتوں کے کھنڈرات کا منظر ہے۔
دونوں فریقوں نے کئی بار جنگ بندی کی کوششیں کیں، مگر اسرائیل نے جنگ بندی کی متعدد قراردادوں کو ویٹو کیا، جس کے بعد عالمی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ ان سب کے درمیان امریکہ کی خاموش حمایت اور عالمی برادری کی ناکام کوششوں نے اس جنگ کی طوالت کو مزید بڑھا دیا۔
غیر یقینی حادثات اور عالمی رہنماؤں کی ہلاکتیں
سال 2024 میں عالمی سطح پر کئی غیر متوقع حادثات اور رہنماؤں کی ہلاکتیں منظر عام پر آئیں، جنہوں نے عالمی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان واقعات نے نہ صرف عالمی سفارتکاری کو متاثر کیا، بلکہ مشرق وسطیٰ کے تناؤ میں بھی اضافہ کیا۔
جنوری 2024: ایران میں سابق جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے دوران دو زور دار دھماکے ہوئے، جن میں 103 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ یہ دھماکے ایک ایسی تقریب کے دوران ہوئے جو ایران کی فوجی قیادت کے لیے اہم سمجھی جاتی تھی، اور ان واقعات نے ایران میں سیاسی اور سماجی سطح پر غم و غصے کی لہر پیدا کر دی۔
اپریل 2024: ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے کئی وزرا آذربائیجان کے قریب ایرانی سرحد پر ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس حادثے میں پورے ایرانی سیاسی منظرنامے میں ایک خلاء پیدا ہوگیا اور اس نے عالمی سطح پر ایران کی داخلی سیاست کو شدید متاثر کیا۔
30 جولائی 2024: اسرائیلی فضائیہ نے بیروت میں حزب اللہ کے اہم فوجی کمانڈر فواد شکر پر حملہ کیا، جس میں وہ شہید ہوگئے۔ امریکہ نے فواد شکر کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کی تھی، اور ان کی ہلاکت نے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا بحران پیدا کیا۔
31 جولائی 2024: حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ان کی رہائش گاہ پر نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں اسماعیل ہنیہ کا سیکیورٹی گارڈ بھی ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے نے فلسطینی گروپوں میں غم و غصے کی لہر دوڑائی اور اسرائیل کے ساتھ جنگی تناؤ میں مزید اضافہ کیا۔
20 ستمبر 2024: اسرائیلی فوج نے لبنان کے علاقے میں حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے سربراہ ابراہیم عقیل اور 15 دیگر کمانڈروں کو شہید کردیا۔ اس حملے میں 55 افراد کی جانیں گئیں، جن میں سے بیشتر عام شہری تھے۔ یہ حملہ لبنان کے داخلی حالات پر بھی اثرانداز ہوا اور حزب اللہ کے حامیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
27 ستمبر 2024: اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا۔ یہ حملہ جنوبی لبنان کے ایک ایسے علاقے میں کیا گیا جو حزب اللہ کے مضبوط گڑھ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ حسن نصر اللہ کی ہلاکت نے لبنان میں شدید سیاسی ردعمل کو جنم دیا اور اسرائیل کے خلاف ایک نئی مزاحمت کی لہر پیدا کی۔
17 اکتوبر 2024: اسرائیل نے غزہ میں حماس کے نومنتخب سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کی۔ یحییٰ سنوار کی موت فلسطینی گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی، خاص طور پر اس وقت جب وہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔ سنوار کی ہلاکت نے فلسطینی مزاحمت کی قیادت میں خلا پیدا کیا اور غزہ میں مزاحمت کی نوعیت پر سوالات اٹھا دیے۔
یہ تمام واقعات عالمی سیاست میں سنگین تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں مشرق وسطیٰ کی جنگوں اور رہنماؤں کی ہلاکتوں نے عالمی تعلقات کو پیچیدہ اور غیر یقینی بنا دیا۔ ان ہلاکتوں کے نتیجے میں سیاسی بحران، جنگی تنازعات اور عالمی سطح پر مزید کشیدگی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ایران کا اسرائیل پر بڑا بیلسٹک میزائل حملہ
یکم اکتوبر 2024 کو ایران نے اسرائیلی اہداف پر کم از کم دو لہروں میں 200 بیلسٹک میزائل داغے، جو ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے کے دوران سب سے بڑا براہ راست حملہ تھا۔ یہ حملہ اپریل 2024 میں کیے گئے حملوں کے بعد ایران کا دوسرا بڑا جواب تھا۔
ایران نے اپنے حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ "دفاعی اقدام” تھا جو اسرائیل کی جانب سے حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ، اور آئی آر جی سی کے جنرل عباس نیلفروشان کے قتل کے جواب میں کیا گیا۔ ایران کا کہنا تھا کہ یہ افراد غزہ میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے آپریشنز کے دوران ہلاک ہوئے، اور ان کی موت نے ایران کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔
ایران کا دعویٰ تھا کہ ان حملوں نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو بڑی حد تک متاثر کیا، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ان حملوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو وسیع پیمانے پر نقصان نہیں پہنچایا۔ اسرائیلی حکام نے کہا کہ زیادہ تر میزائلوں کو مار گرایا گیا اور اس کی فضائیہ کی صلاحیتوں کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا۔
ایران نے مختلف اہم اسرائیلی فوجی اور حکومتی اہداف کو نشانہ بنایا۔ ایران نے نیواتیم ایئربیس پر 20 سے 32 میزائل داغے، جس کے نتیجے میں ایک ہینگر اور ٹیکسی وے کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ، میزائل تل نوف ایئربیس، گیدرا کے قریب ایک اسکول، اور تل ابیب کے شمال میں موساد اور یونٹ 8200 کے ہیڈکوارٹر کے قریب کے علاقوں میں بھی گرے، جس سے گھروں اور ایک ریستوران کو نقصان پہنچا۔
اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس حملے کو "بڑی غلطی” قرار دیا اور عزم کیا کہ ایران "اس کی قیمت چکائے گا”۔ اسرائیل نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کو خبردار کیا کہ اسے اپنے اقدامات کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ایران نے اس حملے کو اسرائیل کی غزہ میں کی جانے والی کارروائیوں کا بدلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے جن اہداف کو نشانہ بنایا وہ وہ لوگ تھے جو غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی میں ملوث تھے۔ ایران کا یہ دعویٰ تھا کہ اسرائیل کی ان کارروائیوں کا مقصد فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور ان کی نسل کشی ہے، اور ایران نے اس کا جواب دیا۔
اسرائیل کے حملے اور عالمی جنگی جرائم
اسرائیل نے نہ صرف غزہ اور لبنان بلکہ شام اور یمن میں بھی اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسرائیل کی جانب سے 2024 میں شام پر کیے جانے والے حملوں میں سینکڑوں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔ یمن میں حوثی باغیوں کے امریکی جہازوں پر حملے بھی جاری ہیں، جس سے عالمی سطح پر تشویش بڑھ گئی ہے۔
اس سال اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات بھی عائد کیے گئے، جس کے بعد عالمی برادری نے اس معاملے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ جنوبی افریقہ نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام اسرائیل پر عائد کیا، جس کے بعد عالمی عدالت انصاف میں کارروائی جاری ہے۔
عالمی عدالتوں میں مقدمات اور سیاسی تبدیلیاں
2024 میں عالمی سطح پر جاری جنگوں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات میں شدت آئی۔ عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیل کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا، جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلنٹ کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ ان تمام واقعات نے عالمی سطح پر ایک نئی سیاسی بحث کو جنم دیا ہے۔
اسی دوران، مشرق وسطیٰ میں حکومتوں کی تبدیلیوں نے بھی عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مختلف ممالک میں حکومتی تبدیلیاں اور نئے اتحادیوں کے تشکیل نے عالمی سطح پر ایک نئی سیاسی لہر پیدا کی۔
سال 2024 عالمی سطح پر ایک متنازعہ اور خونریز سال ثابت ہوا ہے جس نے مشرق وسطیٰ کے تنازعات، عالمی رہنماؤں کی ہلاکتیں اور جنگی جرائم کے مقدمات کو ایک نیا موڑ دیا۔ ان تمام واقعات نے نہ صرف عالمی سیاست بلکہ عالمی معیشت اور سماجی حالات پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس سال کی بدترین جنگوں اور قتل و غارت گری نے دنیا کو ایک اور سبق دیا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور انسانیت کی فلاح کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔