اسلام آباد (مدثر حسین) بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کو لیکر پاکستان میں بھی ایک جوش و جنوں پیدا ہوا تھا، یہاں بھی جغادری صحافی، سوشل میڈیا جنگجو اور موقع پرست سیاستدان انقلاب برپا کرنے کے خواب دیکھنے لگے، جیل میں بند ایک سیاستدان بھی صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں بنگالی انقلاب کو یہاں آنے کی دعوت دیں رہا تھا، باقی اپوزیشن کی تانگہ پارٹیوں کے لیڈرز بھی ڈھاکہ سے آنے والی خبروں پر گہری نظریں جمائے ہوئے تھے۔
انہیں لگا جیسے پاکستان میں بھی کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا سڑکوں پر نکل کر رجیم کا جنازہ نکالے گے، پھر حکومت سازی کے موقع پر چونکہ طلبا حکومت بنانے سے رہے، لہذا ایک بار پھر ان موقع پرست کنگ میکرز کو آگے بڑھنے اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے کا چانس ملے گا،تاہم یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوئے شورش کو لیکر پاکستان میں بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوئے ہوں ، اس سے پہلے جب بدترین معاشی بحران سے گزرتے شری لنکا میں راجا پکھسے خاندان کا شیرازہ بکھر رہا تھا، تب بھی پاکستان میں حکومت گرنے یا گرانے کی بازگشت سنائی دیں رہی تھی، بھارت میں کسانوں کی اندولن سے بھی یہی مخصوص طبقہ متاثر ہوکر پاکستان میں کسان انقلاب لانے کی دھمکیاں دیں رہا تھا۔
اگرچہ یہ انقلاب کی خواہش کئی حوالوں سے حق بجانب بھی ہے، گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کی معاشی ، سیاسی، سماجی صورتحال بد سے بدتر بنتی جارہی ہیں،اس میں سب سے زیادہ اہم معاشی فیکٹر ہے جو لوگوں کی تبدیلی کی خواہش کو مسلسل بڑھاوا دیتا ہیں، تاریخی مہنگائی، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں اور بجلی کے بلز نے لوگوں کا دیوالیہ نکال دیا، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاز آرائی، اداروں کے بیچ ٹکراو، غیر ملکی قرضے، ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ اثرات، عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی بھرمار، مفلوج پارلیمنٹ اور ناکارہ بلکہ نااہل انتظامیہ مل کر اس نظام سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے کافی ہیں، ایسے میں انقلاب یا کسی تبدیلی کی خواہش نیچرل بات ہے۔
لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے، تو پاکستان میں انقلاب کے لیے درکار لوازمات کے ہوتے ہوئے بھی انقلاب کی آمد کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے، البتہ ایک کے بعد دوسرا انتشار اب ایک معمول کی بات بن چکی ہیں، انقلاب کو عموما ایک باشعور طبقہ لیڈ کرتا ہیں، تبدیلی برپا ہونے کا عمل چاہے جتنا بھی پرامن ہو، خون بہے بغیر انقلاب نہیں آتے، انقلاب فرانس سے لیکر انقلاب ایران، اور اب حالیہ بنگلہ دیشی انقلاب تک ہر جگہ باشعور طبقے نے لیڈ کیا، لیکن اس دوران میں کافی لوگوں کی جانیں گئی، کافی املاک کو نقصان پہنچا اور کافی پرانے چہرے جلاوطن یا پھانسی لگا دیئے گئے۔
اس لحاظ سے پاکستان کو دیکھا جائے تو یہاں آئے روز احتجاجی جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں لوگوں کا مرنا، املاک کا جلنا، اور افراتفری کا مچ جانا روٹین کی بات ہیں، اگر ضرورت ہے تو ایک ایسے باشعور طبقے کی جو حقیقت میں انقلابی ٹولہ ہوں، جو اپنی زات ، قبیلے ، فرقے کی سوچ سے بالاتر ہوکر آنے والی نسلوں کی سوچتا ہوں، اور جو واقعی کچھ کر گزرنے کی تمنا اور تاب رکھتے ہوں، تبھی پاکستان کی بنجر سیاسی کھیتی میں انقلاب کا پڑا بیج ایک درخت کی شکل میں بڑا ہو کر حالات بدل سکتا ہیں، فی الوقت یہاں جو لوگ خود کو باشعور کہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی سے پہلے سب سے زیادہ سکہ بند، انقلاب بیزار، اور اسٹیبلیشمنٹ نواز لوگ تھے، انکے سامنے کرکٹ کی چند جگتیں لگانے، قرون وسطی کی ایک دو مثالیں بیان کرنے اور پھر مغرب کو آڑے ہاتھ لینے کی دیر ہوتی تھی،کہ یہ لوگ اسی کو تبدیلی سمجھ بیٹھے تھے، ایسے لوگوں سے انقلاب کی توقع کرنے سے بہتر ہے قوم فی الحال انقلاب کو بھول کر بجلی کے بلز بھرنے کی سوچیں، قرض لے، مکان بیچے، یا گردے، لیکن بلز ضرور بھرے، تاکہ ناکارہ نظام کا پہیہ چلتا رہے۔