تعلیم وہ ذریعہ ہے جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے انسان انسانیت سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ یہ انسان کو اس کے اصل مقام تک پہنچاتی ہے اور کامیاب زندگی کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ تعلیم کے بغیر نہ دنیا کی ترقی ممکن ہے اور نہ ہی انسانیت کی بقا۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ برائیوں کی آماجگاہ تھا۔ بد اخلاقی، بد اعمالی، شراب نوشی، ظلم اور قتل و غارت عام تھے، جسے دین اسلام نے "زمانۂ جاہلیت” کا نام دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برائیوں کی جڑ جہالت ہے ۔
یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اور یہ بات حقیقت بھی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف ایک بہترین ماں بن سکتی ہے بلکہ ایک مثالی شریک حیات اور مضبوط معاشرتی ستون بھی بن سکتی ہے۔
عورت کے کئی کردار ہیں: وہ ماں ہے، جو نسلوں کی تربیت کرتی ہے؛ وہ بیٹی ہےجو والدین کے خوابوں کی تعبیر بن سکتی ہے؛ اور وہ بہن ہے، جو گھر کی عزت اور محبت کی علامت ہوتی ہے۔ ان تمام رشتوں کو بخوبی نبھانے کے لیے ضروری ہے کہ عورت کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
تعلیم عورت کو خودمختاری، شعوراور زندگی کے فیصلے کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے گھر بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خواتین کی تعلیم کو اتنی ہی اہمیت دیں جتنی مردوں کی تعلیم کو دیتے ہیں۔
ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی ماں کی تعلیم سے وابستہ ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو وہ نہ صرف اپنے بچوں کو بہتر تربیت دے سکتی ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور قوم کی بنیاد بھی رکھ سکتی ہے۔
ماں وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے بچے کی شخصیت اور کردار کی تشکیل شروع ہوتی ہے۔ اگر ماں خود علم کے زیور سے آراستہ ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو شعور، اخلاقیات اور تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرائے گی۔ لیکن اگر ماں خود تعلیمی شعور سے محروم ہوتو ایسی صورت میں ان کے بچے سے روشن مستقبل کی توقع رکھنا بے جا ہوگا۔
اس لیے ضروری ہے کہ خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائےکیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پوری قوم کی ترقی کی ضمانت ہے۔ ماں کی تعلیم کا مطلب پوری نسل کی تعلیم ہےاور یہ حقیقت کسی بھی معاشرے کے مضبوط بنیادوں کا پہلا قدم ہے۔
زندگی گزارنے کے لیے خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ قرآن و سنت میں تعلیم کی اہمیت پر واضح طور پر زور دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی کچھ جگہوں اور خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف رویے پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ نوکری نہیں کریں گی یا وہ خواتین کی کمائی پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔
یہ سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ اسلام کی تعلیمات اور معاشرتی ترقی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ ایک لڑکی کو تعلیم دینا پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کے مترادف ہےکیونکہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو بچوں کی تربیت اور پرورش کرتی ہے۔ ماں اولین درسگاہ ہے اور اگر ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو نسلوں کا بنیاد مضبوط ہوگا۔
اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ زندگی کبھی کبھار غیر متوقع موڑ لے سکتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا حالات پیش آتے ہیں۔ اگر کسی لڑکی کے حالات بدل جائیں یا مشکلات کا سامنا ہو، تو کیا بھائی، چچا یا ماموں ہمیشہ اس کے لیے موجود ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا انہیں خود مختار زندگی گزارنے کی صلاحیت سے محروم کرنا ہے۔
جو لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو سکول یا مدرسے بھیجنے کی ضرورت نہیں، وہ درحقیقت ان کے حق تعلیم کو چھین رہے ہیں۔ تعلیم نہ صرف لڑکیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتی ہے بلکہ انہیں مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بھی بناتی ہے۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنے اور لڑکیوں کی تعلیم کو ہر حال میں یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
جب لڑکیوں کو تعلیم اور ہنر سے محروم رکھا جاتا ہےتو بدقسمتی سے وہ مجبور ہو کر دوسروں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ تب ہم روتے ہیں اور کہتے ہیں، "ہائے میری بچی کے نصیب” لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نصیب ہم نے خود بنائے ہیں۔ اگر ہمیں بعد میں قسمت کا رونا نہیں رونا، تو آج ہی اس بات کا فیصلہ کریں کہ ہر بچی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق اور تعلیم کے حوالے سے سب سے زیادہ آواز مغرب سے اٹھتی ہے، جو خود ماضی میں عورت کو کم درجے کی مخلوق سمجھتا تھا۔ لیکن اسلام نے صدیوں پہلے خواتین کو وہ مقام اور حقوق دیےجو دنیا کا کوئی اور نظام نہیں دے سکا۔ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور ان کی تعلیم کے بغیر قوم اور معاشرے کی ترقی ممکن نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو دنیاوی اور دینی دونوں علوم سے مزین کیا جائے۔ آج کے دور میں معاشرے کو ہمدرد اور باصلاحیت ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلاء اور دیگر شعبوں میں ماہر خواتین کی ضرورت ہے۔ خواتین ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہیں بشرطیکہ انہیں تعلیم اور مواقع فراہم کیے جائیں۔ ہمیں مل کر یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہر بچی کو اس کا حق دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے مستقبل کو سنوار سکے اور معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔
لہٰذا اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہر بچی کو اس کا حق حقیقی معنوں میں دیا جائے، چاہے وہ جائیداد ہو، تعلیم ہو یا کوئی اور حق۔ خاص طور پر تعلیم کے معاملے میں ہمیں اپنی بیٹیوں کو آگے لانا ہوگا اور فرسودہ روایات سے باہر نکلنا ہوگاتاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
ہمیں لڑکیوں کو دین اور دنیا دونوں علوم میں تعلیم یافتہ بنانا ہوگاکیونکہ یہی وہ ہستی ہے جو آنے والی نسلوں کی پرورش اور قوموں کی تعمیر کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہر بہن اور بیٹی سے گزارش ہے کہ وہ اپنے والد اور بھائی کے لیے فخر کا باعث بنے، نہ کہ شرمندگی کا۔ اگر وہ تمہیں پڑھائی کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت دیتے ہیں تو ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دیں، تاکہ کل وہ تم پر ناز کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کی ہر بیٹی کو سلامت رکھے اور انہیں باحیا اور باوقار زندگی عطا کرے۔ آمین۔