Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    پیر, نومبر 17, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • درہ آدم خیل کے غیور عوام پاک افواج کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔۔  ملک لطیف افریدی 
    • پشاور سے افغان مہاجرین کی واپسی نہ ھونے کے برابر ھے مختلف علاقوں میں بدستور قیام پزیر۔۔۔
    • برن یونٹ اینڈ پلاسٹک سرجری انسٹیٹیوٹ پشاور صوبہ بھر کے مریضوں کو بروقت طبی سہولیات فراھم کررھا ھے۔۔ پروفیسر ڈاکٹر تہمید اللہ۔
    • رداعمران اور مشی خان کے مارننگ شوز ملک بھر کی خواتین کا اول انتخاب بن چکے ہیں۔۔۔
    • میرے والد کبھی بھی میرے گھر میں آکر نہیں ٹھہرتے تھے۔ ۔۔ تزیئن حسین۔
    • نوجوان نسل میں پاکستانیت اور انسانیت کا احساس اور اھمیت پیدا کرنیوالا توجہ طلب پروگرام( دین فطرت)
    • خیبر ٹیلیویژن کو اکیڈمی کا درجہ حاصل ھے موسیقی اور ڈرامہ کو نئی جدت میں پیش کیا۔۔ افسر افغان۔۔۔
    • صدقے تھیوا فیم سہیل اصغر کو دنیا سے رخصت ھوئے آج چار سال ھوگئے۔۔۔
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » ہم یوم آزادی کیوں منائیں؟
    اہم خبریں

    ہم یوم آزادی کیوں منائیں؟

    اگست 14, 2024کوئی تبصرہ نہیں ہے۔4 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Share
    Facebook Twitter Email

    اسلام آباد (مدثر حسین) تیرہ اگست کی شام بازار سے گزرتے ہوئے جگہ جگہ جشن آزادی کا سامان جھنڈیاں، بیج، ٹوپیاں، اور پو پو کرنے والے باجے بیچنے والوں کی سٹالز پر رش دیکھ کر میرے بہت سارے خیالات غلط ثابت ہوئے، جوان ، بچے اور کچھ ادھیڑ عمر لوگ سٹالز پر کھڑے سامان خرید رہے تھے،انکی انکھوں میں چمک، ازادی کو لیکر انکے جذبات جان کر مجھے جھٹکا لگا، کیونکہ اس سے پہلے میرا خیال تھا کہ اس شدید مہنگائی، غربت ، بے روزگاری، استحصال کے ہوتے ہوئے کون پاگل ہوگا جو جشن آزادی منائے گا، لیکن چودہ اگست سے متعلق عوام میں جوش وخروش دیکھ کر مجھے لگا کہ شائد پاگل میں ہی ہوں، جو وقتی مسائل کو جواز بنا کر وطن بیزار ہوچکا ہوں، یقیناً اپ میں سے بہت سے لوگ اس بلاگ کے ابتدائیہ کو پڑھ کر سمجھتے ہوں گے کہ شائد میں آگے جا کر مطالعہ پاکستان ٹائپ لیکچر دینے والا ہوں، لیکن نہیں، نہ میں کچھ لیکچر دوں گا، نہ ہی اپ کو جشن آزادی کی قدر کرنے کی نصیحتیں جھاڑوں گا، کیونکہ اکثریتی عوام کی طرح میں بھی، وطن سے بہت کچھ امیدیں لیکر بڑا ہوا، زمانہ طالبعلمی میں، میرا بھی خیال تھا کہ ایک شاندار کرئیر میرا منتظر ہوگا، میں بھی سوچتا تھا کہ پریکٹکل زندگی میں داخل ہوکر میں سماج میں جاری بہت سے غلط کام روکوں گا۔
    لیکن جوں ہی پوسٹ گریجویشن کی ، تلاش معاش شروع ہوئی، تو اندازہ ہوگیا کہ تعلیمی ڈگری سے زیادہ یہاں ریفرنسز کی اہمیت ہے، عقل سے زیادہ کم عقلی کی قدر ہے، علم پر جہالت کو فوقیت دی جاتی ہے، سفارش بڑی دلیل ہے کہ آپ کتنے پانی میں ہے، اسی طرح جب چاروں طرف نظریں اٹھی تو غربت کا سمندر دیکھا، سماجی ، سیاسی، معاشی، مذہبی، اخلاقی غرض ہر میدان میں پاکستان کو پاتال میں گرا ہوا پایا، اسی لیے جب بھی چودہ اگست آتا ہے، تو میرے اندر اس آزادی سے بیزاری پیدا ہوتی ہے، بہت سو کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ قائداعظم اور مسلم لیگ نے ہمیں گوروں سے ازادی دلوا کر دیسی گوروں کی غلامی میں دیا ہیں، جو لوگ برٹش سامراج کے دور میں بڑے بڑے نیتا تھے، آج ان کی نسلیں ہماری حکمران ہیں، غرض ایسی سوچوں کے بھنور میں پھنس کر میں لفظ آزادی کو دھوکا سمجھ رہا تھا، لیکن شام کے وقت بازار کا چکر لگانے کے بعد مجھے لگا کہ یہ تمام گلے شکوے ایک طرف، اور عوام کی آنکھوں میں پاکستان کو لیکر پائے جانے والے سپنے دوسری طرف، یہ پچیس کروڑ لوگ چاہے کتنے ہی نظام سے بیزار ہوکر پاکستانیت کا اظہار اسی طرح کھل کر نہیں کر پا رہے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک کے عوام اپنی دھرتی سے کرتے ہیں، لیکن یقین مانیے یہ لوگ دل سے اپنے دیس کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں، جتنا کہ کوئی بھی محب وطن قوم ہوسکتی ہے، اس لیے کیونکہ ان پچیس کروڑ لوگوں کو ادراک ہیں،کہ پوری دنیا میں پاکستان ہی وہ گوشہ ہے، جسے وہ اپنا وطن کہہ سکتے ہیں، جس کی مٹی کو سونگھ کر انہیں سکون آتا ہے، یہ جو اورسیز پاکستانی ہوتے ہیں، یہ ہماری نظروں میں بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جو ملک چھوڑ کر اپنی قسمت بناتے ہیں، لیکن کبھی آپ نے انکے دلوں میں جھانک کر وہ تڑپ دیکھی ہے جو بیرون ملک رہتے ہوئے انہیں ہر دم بے چین رکھتی ہیں، تبھی تو پاکستان کا نام سن کر انہیں جو اپنائیت محسوس ہوتی ہیں، ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہی۔

    نظام سے گلے شکوے بالکل جینوئین ہیں، لیکن پاکستان سے دلی محبت اس سے بھی زیادہ جینوئن ہیں، تبھی تو ارشد ندیم نے ایک مڈل جیت کر کروڑوں لوگوں کے بجھے دلوں میں نئی امیدیں جگا دی، یہ قوم کب سے ایسی خوشخبریوں کی آس لگائے بیٹھی ہے، اگر حکمران طبقات ذرا بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا کر ڈلیور کرنا شروع کردیں، تو مجھے یقین ہے لوگ گروہوں کی شکل میں ملک چھوڑنے کی بجائے جوق درجوق باہر سے واپس اپنے ملک کی سدھار میں حصہ ڈالنے کو آئیں گے، خدا کریں اس ارض پاک پر اترے ، وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleوطنِ عزیز کا 78واں یومِ آزادی: ملک بھرکی مساجد میں قومی سلامتی کیلئے دعاؤں کا اہتمام
    Next Article پختون بھائیوں کی قربانیوں کی لا زوال داستان پر پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے ،آرمی چیف
    Web Desk

    Related Posts

    پولیس اور سی ٹی ڈی اہلکار خیبر پختونخوا کے امن کے ذمے دار، ضرورت پڑنے پر دیگر ادارے طلب کئے جائیں گے،امن جرگے کا اعلامیہ

    نومبر 12, 2025

    27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی دوتہائی اکثریت سے منظور

    نومبر 12, 2025

    افغانستان کے تاجر پاکستان پر انحصار کے بجائے متبادل راستوں کو اپنائیں، نائب وزیراعظم ملا برادر

    نومبر 12, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    درہ آدم خیل کے غیور عوام پاک افواج کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔۔  ملک لطیف افریدی 

    نومبر 17, 2025

    پشاور سے افغان مہاجرین کی واپسی نہ ھونے کے برابر ھے مختلف علاقوں میں بدستور قیام پزیر۔۔۔

    نومبر 17, 2025

    برن یونٹ اینڈ پلاسٹک سرجری انسٹیٹیوٹ پشاور صوبہ بھر کے مریضوں کو بروقت طبی سہولیات فراھم کررھا ھے۔۔ پروفیسر ڈاکٹر تہمید اللہ۔

    نومبر 17, 2025

    رداعمران اور مشی خان کے مارننگ شوز ملک بھر کی خواتین کا اول انتخاب بن چکے ہیں۔۔۔

    نومبر 15, 2025

    میرے والد کبھی بھی میرے گھر میں آکر نہیں ٹھہرتے تھے۔ ۔۔ تزیئن حسین۔

    نومبر 15, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.