تاریخ ہر دور کے زمیں زادوں کو آئینہ دیکھاتی ہے۔ آمروں کی تاریخ اور ان کے مقدر پر غور کیا جائے تو اس میں ناکامیاں ہی ناکامیاں ملتی ہے ایسا نہیں کہ یہ امر الہی ہے در حقیقت آمروں نے خود ان ناکامیوں کا انتخاب کیا ہے، انہوں نے تہیہ کیا ہے کہ ماضی سے کچھ نہیں سیکھنا، یہ ناکام ارادوں کی تاریخ دہراتے رہتے ہیں، ہر دور میں روپ بدلتے ہیں مگر کردار وہی ناکامی والا دہراتے ہیں، جبکہ تاریخ ہر نئے آمرانہ کردار کے سامنے ماضی کے کرداروں کی ناکام داستانیں پیش کرتی ہے جبکہ یہ خود ساختہ عقل و دانش کے عظیم کردار تاریخ کو بھی فریب دے کر فراموش کرنے کے کوشش کرتے ہیں مگر تاریخ کا وجود تو ہابیل و قابیل بلکہ کرہ ارض کے وجود سے ہی ہے وہ کہاں ان کے فریب میں آتی ہے وہ انہیں ہر بار آئینہ دیکھاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے انتخابی نشان نہیں بلکہ آرٹیکل 17 کے تحت عوام کو حاصل انتخاب نشان ان سے واپس لیا، اس فیصلے یہ نے مجھے تاریخ کے اوراق میں غوطہ زن کیا، مجھے اس دور میں جانا پڑھا جب وطن عزیز میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا طوطی بولتا تھا، اس زمانے کی مقبول ترین جماعت کی مقبولیت آمروں کو پسند نہ آئی گو کہ اس جماعت کے جد امجد کے سیاسی تخلیق کار بھی وہی تھے، بڑھتی مقبولیت محروم و محکوم طبقات کی امید بننے والی اس جماعت کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ اب اسے سیاسی صفہ ہستی سے مٹایا جائے گا، یوں پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے ہر طرح کے آمرانہ حربے اپنائے گئے مگر ناکام، پیپلز پارٹی ختم کرتا تو درکنار مقبولیت میں کمی بھی نہ لا سکے۔ سونے پہ سہاگا اپنائے گئے ہتھکنڈوں نے جماعت کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک انتہائی اہم ہتھکنڈہ آستعمال کرنے کا فیصلہ ہوا چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا وہ ایک طرح سے اولین دور تھا اور انکا اولین انتخابی نشان تلوار تھا تو اس دور کے سلیکشن کمیشن کو حکم صادر ہوا کہ اس جماعت سے ان کا انتخابی نشان چھین لیا جائے اور یوں انتخابی نشان چھین لیا گیا، سفر یہاں ختم نہیں ہوا بڑھتی عوامی مقبولیت کی وجہ سے بلآخر بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا۔
آج قریب نصف صدی کا سفر طے ہوا نہ تلوار چھیننے سے پارٹی ختم ہوئی اور نہ ہی بھٹو کا عدالتی قتل کرنے سے جماعت سیاسی منظرنامے سے غائب ہوئی، عدالتوں نے شرمساری کا اظہار کیا عدل کے ایوان میں بیٹھے انصاف کے ضامنوں نے تسلیم کیا کہ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا، پیپلز پارٹی آج تلوار کے بغیر بھی اپنا وجود رکھتی ہے بھٹو کی پھانسی نے بھٹو کے سیاسی گناہوں کو دھو ڈالا اور یوں بھٹو بھی امر ہوگیا
میں بہت حقیر سا بہت معمولی سا قلمکار اس تاریخ سے واقف حال ہون اور اس سے سبق حاصل بھی ہو رہا ہوں مگر یہ خود ساختہ عقل و دانش کے عظیم آمرانہ کردار اس تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ پائے کیونکہ یہ سیکھنا ہی نہیں چاہتے اور آج پھر اسی تاریخ کو دہرا رہے ہیں آج ایک نظریہ کی بنیاد پر جنم لینے والی جماعت گو کہ اس جماعت کے روح رواں نے بعد میں انہی آمروں سے اقتدار کے منصب میں فائز ہونے کے لئیے ساز باز بھی کی جی ہاں بات قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کے سب سے مقبول ترین سیاسی کردار عمران خان کی تخلیق کردہ جماعت تحریک انصاف کی ہو رہی ہے آج اس جماعت کو اور اس کے روح رواں کی جو مقبولیت پاکستانی عوام میں ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی یہ وہ جماعت ہے جس نے آج باقاعدہ ایک مزاحمتی تحریک کا روپ اپنایا ہے اس جماعت کے روح رواں نے حقیقی آزادی کا فلسفہ خواص و عام پاکستانیوں میں متعارف کروایا اس جماعت کے سربراہ نے پاکستانی نوجوانوں کو ریاست، سیاست کی تشریح سے روشناس کروایا اور آج اور کل کے پاکستان کے معماروں کو باقاعدہ اس کا حصہ بنایا، آج کے عجیب الخلقت قسم کے دانش ور ان نوجوان کو بدتمیز، بد تہذیب کی اسناد سے نواز رہے ہیں کیونکہ ان سے پہلے کی نسلوں نے کبھی وسائل کے غیر منصفانہ تقسیم پر سوال نہیں اٹھایا تھا ریاست کو یرغمال رکھنے والے طبقات سے کبھی ریاست کو آزاد کرانے کی کوشش نہیں کی تھی، تنگ و تاریک گلیوں میں سسکتی، بلکتی نوحے پیش کرتی تڑپتی زندگیاں گزارنے والوں نے اپنے حقوق کو جاننے کی انہیں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور کبھی ان دانشوروں کو ان کے عیب زدہ لفظوں سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
آج عمران خان نے انہی تنگ و تاریک گلیوں میں خواہشات کا گلہ گھونٹے عزت نفس کو ہمہ وقت مجروح ہوتے دیکھنے والوں کو ایک امید دی ان کے اندر توانائیاں پیدا کی انہیں ان کی اہمیت سے روشناس کیا انہیں سوال اٹھانے کی جرات دی انہیں استحصالی نظام سے ٹکرانے کی قوت فراہم کی اور یوں اس عوام نے اس شخص جسے عمران خان کہا جاتا ہے کو اپنا مسیحا جانا، اور یہی وہ عمران خان کا کردار تھا جو آمرانہ ذہنیت کے حامل قوتوں کو برداشت نہیں ہوا یوں فیصلہ کیا گیا پھر سے ناکام تاریخ کو دہرانے کا پھر سے ایک مقبول ترین جماعت کو ختم کرنے پھر سے ایک ایسے کردار کو مٹانے کے لئیے جو آج اور آنے والی کل کی نسلوں کے دل و دماغ میں بس گیا ہے، ریاست میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئیے استعماری قوتوں میں پاکستانی تاریخ میں پہلی بار عمران خان نے تھرتھلی مچادی انہیں خوف میں مبتلا کردیا، انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ یہ شخص ان کی قائم کردہ خودساختہ سلطنت کو ریزہ ریزہ کر دے گا، اسی ڈر و خوف اور اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے آمروں نے پھر وہی فیصلہ لیا پھر سے ماضی کی تاریخ دہرانے کا اور آج پھر وہی عمل دھرایا گیا جو ماضی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ رواں رکھا گیا استحصالی قوتیں بھٹو کی طرح اب عمران خان سے اس کی سانسیں بھی چھیننے کی کوشش کریں گی، مگر انہیں کون یہ سمجھائے کون انہیں بتائے کہ یہ عہد یہ زمانہ عمران خان کا ہے اور اس عہد اور اس زمانے کے زمیں زادوں سے نہ عمران خان چھیناجاسکتا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کو مٹایا جاسکتا ہے کیونکہ آمروں کے غلط فیصلوں نے عمران خان کو اب پاکستانیوں کے لئیے فلسفہ حیات بنا دیا ہے۔
زوالفقار علی بھٹو کے بعد سے پاکستان میں سول آمرانہ طرز کی حکومتوں سے لیکر مارشل لاء کے تخلیق کاروں نے امریکہ نواز ہونے میں اس قدر بھرپور کردار ادا کیا کہ پاکستان کی سالمیت تک کو داؤ میں لگا دیا ڈرون حملوں سے لیکر ایبٹ آباد سانحہ قبائلی غیور پاکستانیوں پر جس طرح زندگی تنگ کی گئی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ مسلمہ حقیقت ہیکہ امریکہ نواز پالیسیوں کو تقویت فراہم کرنے سے پاکستان معاشی، سماجی سطح پر اس قدر کمزور ہوگیا کہ آج پاکستان دنیا میں معاشی، اخلاقی کمزور ترین پوزیشن میں ان پہنچا۔
بھٹو کو یہ یقین تھا کہ پاکستانی عوام عالمی سامراجیت کیخلاف بھٹو کی اس جنگ میں بھٹو کو سامراجیوں سے بچائے گی وہ اس قدر پُرامید تھے کہ ملاقاتیوں سے کہتے تھے کہ عوام مجھے ان سلاخوں کو توڑ کر ان زندان کی دیواروں کو گرا کر انہیں آزاد کرانے گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ چیل کی کال کوٹھری میں عوام کا منتظر بھٹو مایوس ہوگیا پھر ایک روز بھٹو نے
جیل میں کہا لگتا ہے میری پارٹی کے لوگوں کو ذندہ سے زیادہ مردہ بھٹو کی ضرورت ہے اپنے اقتدار کے لیے
بھٹو کو مروانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت کی نااہلی کا ہاتھ تھا پھانسی کے بعد جلاؤ گھیراؤ بھی عام کارکنوں نے کیا لیکن تب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
بھٹو کے چہلم پر گڑھی خدا بخش میں کارکنان نے بھٹو کے کزن اور اس وقت کے مرکزی راہنماء ممتاز بھٹو کو گھیر لیا اور انہیں بینظر بھٹو اور نصرت بھٹو کی رہائی کے لیئے سخت احتجاجی اور قانونی اقدامات اٹھانے کا کہا تو
اس وقت ممتاز بھٹو کے الفاظ تھے ” کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں جنرل ضیاء سے بات کرتا ہوں” اس پر ورکر بپھر گئے اور موصوف جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے
آج تاریخ پھر سے خود کو دہرا رہی ہے۔ عالمی منظر نامہ پر پھر سے زوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان میں ایک سیاسی راہنماء نے امریکہ مخالف اتحاد میں پاکستان مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے عمران خان، زوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ واحد شخصیت ہے جس نے نہ صرف پاکستانی تشخص کو منوانے بلکہ عالم اسلام کی بھی عالمی استعماری قوتوں کے سامنے بہترین ترجمانی کا مظاہرہ کیا اور ایسے میں امریکہ کو واشگاف انداز میں #AbsoultlyNot کہتے ہوئے امریکہ اور اس کے حواریوں کے سامنے واضح کردیا کہ اب ہم آپ کی مفادات کو یقینی بنوانے میں آپ کے سہولت کار کا کردار نہیں نبھائیں گے اس جرات مند مئوقف کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں کے ظلم و ستم کے شکار مسلم امہ نے عمران خان کو مسیحاء جاننا شروع کیا، امریکہ مخالف ممالک نے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے اور عالمی منظر نامہ میں امریکہ اور اس کے حواریوں کے مقابلے میں ایک مضبوط بلاک قائم کرنے میں متحرک ہوگئے تھے بلخصوص ایشئین بلاک جس میں پاکستان مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔
بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے کے بعد روزنامہ ایکسپریس کے معروف کالم نگار زمرد نے ایک بہت اہم کالم لکھا تھا جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔زمرد نقوی نے لکھا تھا کہ اس ملک کی جو بھی قیادت سامراج کے مفادات سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گی وہ ماری جائے گی اور اس کا قاتل نہیں پکڑا جائے گا۔ایک ہفتے بعد مرحوم معراج محمد خان نے جنگ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے یہی باتیں دہرائی تھی آپ دیکھ رہے ہیں ابھی تک بینظیر بھٹو کا قتل ایک معمہ بن چکا ہے پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ اقتدار میں یہ معمہ برقرار رہا ۔ انہوں نے لکھا کہ کیا عمران خان اسٹرٹیجک ڈپتھ میں جاکر یہ باتیں کر رہے ہیں یا نادیدہ قوتیں ان سے کہلوا رہے ہیں کیونکہ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں عمران خان کا گولبل ایمپائر کو للکارنا چھوٹی بات نہیں ہے آنے والے حالات کس جانب کروٹ لیتے ہیں یہ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ بیرونی دنیا میں ہونے والے فیصلوں کا کسی کو بھی سو فیصد علم نہیں ہوتا اگر علم ہوتا تو پاکستان کئی بار سانحات اور انسانی المیوں سے دوچار نہیں ہوتا سامراج کے عزائم کو آسانی سے سمجھنا ممکن نہیں ۔سامراج کے گملے میں لگے پودے ملک کے اندر موجود ہیں وہ داخلی اور خارجی مسائل کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اور وہی ہوا سامراج کے سہولت کاروں نے بھرپور فائدہ آٹھایا اور ابھی تک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ آج بھٹو نہیں لیکن عمران خان ہے آج پیپلز پارٹی نہیں تحریک انصاف ہے آج بھی وہی باتیں وہی دعوئے دہرائے جا رہے ہیں جو آج سے 45 سال پہلے پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہی تھی۔
عمران خان کو کچھ ہوا تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے پیپلز پارٹی کی قیادت نے بی بی شہید کی شہادت کیبعد بس ایک ہفتہ اجتجاج کیا اور ریاستی و نجی املاک کو جلایا اللہ نا کرے خان کو کچھ ہو گیا تو تحریکی کیا کریں گے!!!!
بھٹو کو جب پھانسی دی جارہی تھی تو اس وقت کی قیادت کا جو حال اور کردار تھا اب وہی حال اور کردار تحریک انصاف کی قیادت کا ہے جس کی بزدلی اور واضح ہدف سے دوری وہ نقصان کروا دیگی جس کا ازالہ کبھی نہیں ہو سکے گا
تمام فرنٹ لائن قیادت یا تو بزدل ھے یا مصلحتی مفاہمتی کردار کا وعدہ کر بیٹھے ہیں۔اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
عمران خان نے پی ٹی آئی کی قیادت جن کو سونپی وہی عمران خان کو بھنور میں دھکیل رہے ہیں، خان نے وکلاء پر اعتماد کہ وکلاء قانونی دائرے میں رہتے ہوئے مضبوط مزاحمتی تحریک چلانے میں بہترین حکمت عملی رکھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوا، خان کی امیدوں کے بر خلاف اقدامات کو فروغ دیا گیا۔
اب تک تحریک انصاف کی مفلوج قیادت نے بہت نقصان پہنچا دیا ہے انکی کوٸی سمت ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا اہم ہے ہر ایک اکیلا دوڑ دوڑ کر ہانپ رہا ہے، اگر آج کوئی عمران خان کے ساتھ مخلص ہے اور خان کے لئیے اپنے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا چکے ہیں تو ان میں گلگت بلستان کے محمد خالد خورشید سر فہرست ہے اور ان کے ساتھ موجودگی سیکرٹری جنرل اور چند ایک کردار اور ہے۔ جیسے تیسے کر کے ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں خان کے دیوانوں نے تمام رکاوٹیں تمام مصائب کو پاؤں کے نیچے روند کر لبیک کہا یہ عمل خوش آئند تھا اسی تسلسل کو قائم رکھنا قائدین کا فرض بنتا تھا دانشمندی کا مظاہرہ کیا جانا چاہئیے تھا مگر ایسا نہ ہوا گنڈا پور نے ایک ایسی تقریر کر ڈالی کہ جس سے دوبارہ تلخیاں بڑھ گئی تحریکی کارکنان انقلاب کے لئیے بھی تیار ہے مگر قائدین نہیں سوالے خالد خورشید کے اس جلسے کے بعد پی ٹی آئی قیادت اب یہ تاثر دے رہی ہیکہ یہ بجو سیٹ اپ بن چکا ہے اب بس اسی کے ساتھ چلنا ہے ۔ جو کُچھ کہنا ہے کرنا ہے اسمبلی میں کہیں گے اور کریں گے، عوام کے ساتھ سڑکوں پر نہیں۔
یہ بات طے ہیکہ اب تحریک انصاف کے قائدین بھی وہی کردار نبھا رہے ہیں جو کردار ماضی کی پیپلز پارٹی نے نبھایا تھا جب بھٹو جیل میں تھا مگر شاید اب وقت بدل چکا ہے اب حالات ویسے نہیں اس بار نہ تو فیصلے سندھ کے ریگستانوں میں ہونے ہیں، نہ ہی بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر اور نہ ہی فاٹا کے دور دراز علاقوں میں، اس مرتبہ سامنے پاکستان کی مڈل کلاس اور 65 فیصد آبادی پر مشتمل نوجوان ہیں۔
اب کی بار مڈل کلاس اور محکوم طبقہ نے ٹھان لی ہیکہ اس ملک کو حقیقی سول بالادستی کی طرف لے کر جانا ہے اب کی بار پاکستانی نوجوان عمران خان کا تحفظ کر رہا ہے پاکستان کے مستقبل کا تعین اب کی بار نوجوان کریں گے۔ زوالفقار علی بھٹو کو تو نہیں بچا سکے شاید اب کی بار یہ نوجوان عمران خان کو بچا پائے گو کہ تحریکی قیادت ذندہ عمران خان کے بجائے اب شاید مردہ عمران خان میں ذیادہ مفادات دیکھ رہی ہے۔ اور مجھے خدشہ ہیکہ ایک روز عمران خان بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وہ مایوس کن جملہ دہرائیں گے کہ لگتا ہیکہ تحریک انصاف قیادت کو ذندہ عمران خان کے بجائے اب مردہ عمران خان میں فوائد ذیادہ نظر آرہے ہیں۔ بہر کیف زوالفقار علی بھٹو پھانسی کے بعد امر ہوگیا۔ اور عمران خان اپنی حیات میں ہی امر ہوگیا ہے۔