Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

سانحہ اے پی ایس کیس: وزیراعظم کی ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی

سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس، وزیراعظم خود عدالت میں پیش

اسلام آباد:وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ عدالت کے حکم کے تحت سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داران اور غفلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے اورملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ میں وزیراعظم عمران خان کی آمد کے بعد سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی توچیف جسٹس نے وزیراعظم کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ آئیں۔چیف جسٹس اعجازالحسن نے وزیراعظم سے مکالمہ کیا کہ والدین کو مطیئن کرنا ضروری ہے،والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام کے خلاف کاروائی ہو۔وزیراعظم عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ سال 2014میں جب یہ سانحہ ہوا تو صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی،واقعے کے دن ہی پشاور گیا اوراسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملاقات کی تھی۔عمران خان نے مزید بتایا کہ اس سانحہ سے متعلق صوبائی حکومت جو بھی مدوا کرسکتی تھی وہ کیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیے،والدین سوال کرتے ہیں کہ پورا سیکورٹی سسٹم کہاں تھا۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ ہمارے واضع حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔وزیراعظم نے عدالت کو تمام ذمہ داران اورغفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا اسامہ بن لادن اور افغانستان سے لینا دینا نہیں تھا،اس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی۔عدالت نے کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے چار ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 7سال سے کسی بڑے نام کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی، اب آپ بااختیار وزیراعظم ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ آپ ہمارے وزیراعظم ہیں اورآپ کا احترام کرتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ مظلوم کا ساتھ تو یہی ہے کہ ظالم کے خلاف کارروائی ہو، کیا ہم پھر مذاکرات کرکے سرنڈر کر رہے ہیں،میڈیا رپورٹس کے مطابق پھر سے مذاکرات ہورہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ شہدا کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے،اس وقت کے آرمی کے کرتے دھرتے تھے مراعات کے ساتھ ریٹائرڈ ہوگئے۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ سپاہی سے پہلے ذمہ دارن ٹاپ افسران تھے۔قبل ازیں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے کیس کے دوران اٹارنی جنرل سے سوال کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ آج بروز بدھ 10 نومبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے حملے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔پچھلی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ اے پی ایس حملے میں ہم نے اپنے بچے کھو دیے لہذا کیس کی ایف آئی آر درج کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کر کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔آج اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اعلی حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔عدالت نے اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ سکیورٹی لیپس تھا، حکومت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، اس وقت کے تمام عسکری و سیاسی حکام کو اس کی اطلاعات ہونی چاہیے تھی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو تمام خبریں ہوتی ہیں لیکن جب ہمارے اپنے لوگوں کی سکیورٹی کا معاملہ آتا ہے تو وہ ناکام ہو جاتی ہیں۔ عوام کی حفاظت کی بات آتی ہے تو انٹیلیجنس کہاں چلی جاتی ہیں؟۔ انٹیلیجنس پر اتنا خرچ ہو رہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپریشن ضرب عضب جاری تھا اور اس کے ردعمل میں یہ واقعہ پیش آیا، ہمارے حکومتی اداروں کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے تھے۔اے پی ایس کا واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی، کیس میں رہ جانے والی خلا سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمی کو بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لیکر چلتے بنے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، اپنا دفتر چھوڑ دوں گا لیکن کسی غلطی کا دفاع نہیں کروں گا، اگر عدالت تھوڑا وقت دے تو وزیراعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لیکر عدالت کو معاملے سے آگاہ کروں لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے، اس پر وزیراعظم سے ہی جواب طلب کریں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے ؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کرینگے، ایسے نہیں چلے گا۔بینچ میں شامل جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا۔ سب سے نازک اور آسان ہدف اسکول کے بچے تھے۔سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں موجود شہید کے والدین کے وکیل امان اللہ کنرانی نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں۔ ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ اس پر عدالت نے جوابا کہا کہ یہ سیاسی باتیں یہاں نہ کریں یہ عدالت ہے۔قبل ازیں شہدا کے والدین نے سپریم کورٹ سے جنرل راحیل شریف، جنرل ظہیر السلام کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔ جب کہ اس ووقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار، کور کمانڈر جنرل ہدایت الرحمان کیخلاف بھی مقدمہ درج کرنے کی استدعا گئی تھی۔ والدین نے سابق وزیراعلی پرویز خٹک اور سابق سیکریٹری داخلہ اختر شاہ کیخلاف بھی کارروائی کی استدعا کی تھی ۔عدالت نے گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو والدین کی استدعا پر حکومت سے ہدایات لیکر آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.