سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کے سامنے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت جاری ہے، سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص لوگوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل بدنیتی پر مبنی ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص شہریوں کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فوج چارج کرسکتی ہے ٹرائل سول عدالت میں چلے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔ سپریم کورٹ میں لارجر بینچ کی سماعت کے باعث دیگر بینچز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی، سپریم کورٹ میں 3 معمول کے بینچز نے مقدمات کی سماعت کرنا تھی۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں، میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرادیئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص شہریوں کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟، کن وجوہات کی بناء پر شہریوں کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟۔
جسٹس منصور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، انہوں نے پوچھا کہ سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟، جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کررہے تو قانون کی بات کریں۔
فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جاکر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہوگا ان کو اپیل کا حق ملے گا لیکن جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔
دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟، آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتادیں، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جاسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ قانوناً اگر فوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟، کوئی دستاویز تو دکھادیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آپ یہ نہیں بتاسکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
فیصل صدیقی کی جانب سے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کی حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی، جس میں بتایا گیا ہے کہ 9 مئی کو کتنے لوگوں کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضے پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھجا گیا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کیخلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاؤں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھیجا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے دلائل متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ فوج کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آپ بتائیں ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے، عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔
جسٹس مظاہرہ اکبر نقوی نے کہا کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بنا سکے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں، اگر ایف آئی آر میں افیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟۔
جسٹس منصور نے کہا کہ آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا؟، آرمی کے اندر اس فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے۔
فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ کریمنل پروسیجر کی سیکشن 549 میں اس کا جواب ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ اگر 549 میں اس کا جواب نہ ہوا تو جرمانہ ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوئری یا انویسٹی گیشن تو ہونی چاہئے، ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟۔ سول سوسائٹی کے وکیل نے کہا کہ آفشیل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا آپ ان مقدمات میں پراسیس کا بتائیں۔
گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے لطیف کھوسہ کی جانب سے فوری حکم امتناع درخواست مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے تھے۔
شہریوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کیلئے 9 9 رکنی بینچ بنایا گیا تھا جو جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کے علیحدہ ہونے پر ٹوٹ گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹے آرڈر پر پہلے اٹارنی جنرل کا مؤقف سنیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ رات ہی تحریری حکمنامہ جاری کیا جس میں وزیراعظم شہباز شریف کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔