نیو یارک (اخبار خیبر ) افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیو ں کی تعلیم پر عائد پابندی کے ایک ہزار دن مکمل ہوگئے ہیں جبکہ اقوام متحد ہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے ہزار دن مکمل ہونے کو ایک اداس اور سنجیدہ سنگ میل قرار دیا ہے ۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد طالبان حکومت نے اس جنگ زدہ ملک میں لڑکیو ں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی جس کو آج (جمعرات )کے روز ایک ہزار دن مکمل ہوگئے ہیں ۔ اگرجہ طالبان کی امارت اسلامیہ عبوری حکومت ماضی میں خواتین او بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے اس معاملے کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے چکے ہیں اور واضح کرچکے ہیں کی کسی دوسرے ملک کو اس معاملے میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے ۔
دوسری جانب بچوں کے حقوق بارے کام کرنے والے اقوام متحد ہ کے ادارہ یونیسف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے طالبان حکومت کی جانب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے ہزار دن مکمل ہونے کو ایک اداس اور سنجیدہ سنگ میل قرار دیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ اسکول سے باہر ایک ہزار دن کا مطلب یہ ہے کہ بچیوں کے سیکھنے کے تین ارب گھنٹے ضائع ہو گئے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پندرہ لاکھ لڑکیوں کے لیے اسکولوں سے یہ منظم اخراج نہ صرف ان کے تعلیم کے حق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں مواقع کم ہوتے ہیں اور ذہنی صحت خراب ہوتی ہے۔
دوسری جانب رواں ماہ اس سلسلے میں 18 جون کو اقوام متڈہ کْی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ جاری کی جائی گی۔ رپورٹ میں امارات اسلامی افغانستان کی جانب سے امتیازی سلوک ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی او خواتین کے ساتھ ناروا سلوک پر کڑی تنقید کی گئی ہے ۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائیندہ نے سفارش کی ہے کہ عالمی قانون کے تحت صنفی نسل پرستی کو ایک جرم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس سلسلے میں طالبان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ درج کیا جائے او ر یہ کہ عالمی عدالت انصاف امارات اسلامی افغانستان سے ان جرائم کی تحقیقات یقینی بنائی جائے ۔